’’احسن اقبال حاضر ہو!‘‘

تو کیا اب احسن اقبال کی باری ہے؟
جب ‘جرم‘ ایک ہے تو سزا مختلف کیسے ہو سکتی ہے؟ آج انصاف ہو رہا ہے اور سرِعام ہو رہا ہے۔ اس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ‘اقامہ‘ کے کسی مجرم کو نہ بخشا جائے۔ انصاف کی یہ رسم اس طرح نبھائی جائے کہ ‘اقامہ‘ جرم کا استعارہ بن جائے۔

مجلسِ قانون ساز میں، اگر پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف، سینیٹ کے انتخابات کی طرح مل جائیں تو جرائم کی فہرست میں ایک نئے جرم ‘اقامہ‘ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح میڈیا کی جاری کوششوں میں مزید برکت پیدا ہو تو ‘اقامہ‘ کو جرم کی علامت بنایا جا سکتا ہے۔ ‘اقامہ‘ کا ذکر ہو اور لوگ جان جائیں کہ کس جرم کی بات ہو رہی ہے۔

احتساب ہو اور سرِ عام ہو۔ برسوں پہلے تحریکِ انصاف نے یہ نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت ہے جو ابھی برسرِ اقتدار نہیں آئی اور اس کے منشور پر عمل در آمد کا آغاز ہو گیا۔ عمران خان سے کرامتوں کا ظہور ہونے لگا۔ جس نظام کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اس سے انصاف کا صدور نہیں ہو سکتا، ان کی کرامت سے وہ نظام انصاف دے رہا ہے اور سرِ عام دے رہا ہے۔ تبدیلی آ چکی۔ آج ڈاکو اور لٹیرے بے بس ہیں۔

انہیں کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی۔ جیل کے پھاٹک بے چین ہیں کہ کب انہیں اپنے حصار میں لے لیں۔ عمران خان نے بغیر اقتدار وہ کر دکھایا جو لوگ اقتدار کے ہوتے ہوئے نہیں کر سکے۔ دنیا کی تاریخ میں نظام کی تبدیلی کا اس سے بڑا مظہر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اس نظام کا ہدف کون ہے؟ ظاہر ہے نواز شریف۔ ہمیں بتایا جا چکا کہ وہ ‘گاڈ فادر‘ ہیں۔ سسیلین مافیا۔ آج یہ نظام کس کے خلاف متحرک ہے؟ ظاہر ہے اسی سسیلین مافیا کے خلاف۔ خواجہ آصف کون تھے؟ عمران خان نے بتا دیا کہ ‘گاڈ فادر‘ کا ایک درباری۔ ‘نظام‘ ان سب کے تعاقب میں ہے۔ اس مافیا کا سیاسی کردار ختم ہو چکا۔ سٹیٹس کو کی قوتیں، اب اس نظام کی باغی ہیں۔ اب عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ چین کی راتیں ہوں گی اور بے فکری کے دن! تبدیلی آ چکی اور وہ بھی اچانک۔

سیاسیات اور عمرانیات (کسی غلط فہمی سے بچنے کے لیے، بشریات) کے ماہرین حیران ہیں۔ ‘انقلابی‘ اور ‘ارتقائی‘ دونوں انگشت بدنداں ہیں۔

صدیوں کے نظریات اور افکار کو تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ان کا دفاع ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا۔ انقلابی یہ بتاتے رہے کہ خون بہائے بغیر کوئی انقلاب نہیں آ سکتا۔ اشتراکیوں نے ہمیں سمجھایا کہ ایک طبقاتی جنگ ناگزیر ہے۔

اس میں جان دینی اور لینی پڑتی ہے۔ اسکے بعد کہیں انقلاب کی صبح طلوع ہوتی ہے۔ مقدور ہو تو میں ماؤ اور لینن کی قبروں کے سرہانے کھڑا ہو جاؤں۔ انہیں پکاروں اور بتاؤں: ”دیکھو! ایک قطرہ خون بہائے بغیر، پاکستان میں انقلاب آ چکا۔ ایک صاحبِ کرامت نے تمہارے فلسفوں کو آنِ واحد میں غلط ثابت کر دیا‘‘۔

ممکن ہوتا تو میں صدیوں پہلے، یورپ میں اٹھنے والی تحریکِ اصلاحِ مذہب اور نشاۃ الثانیہ کے علم برداروں کو آواز دیتا۔ انہیں پاکستان کے کسی چوراہے پر لا کھڑا کرتا اور ان سے کہتا: ”شہر کو یہاں سے دیکھو! تمہیں جو امن اور خوش حالی دکھائی دے رہی ہے، یہ صدیوں کی جدوجہد نہیں، محض چار سال کی کوششوںکا ثمر ہے۔ ایک فردِ واحد اٹھا اور اس نے کایا پلٹ دی۔ تم سمجھاتے رہے کہ ارتقا ہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ پہلے ذہن بدلتے ہیں۔ سوچ کا ڈھانچہ تبدیل ہوتا ہے۔ پھر اداروں میں نئی سوچ کا ظہور ہوتا ہے۔ دیکھو! کیسے چشمِ زدن میں زمین آسمان تبدیل ہو گئے۔ کون سا ارتقا اور کیسا ارتقا!‘‘

اب تو لازم ہے کہ خود کو بھی آئینے کے سامنے کھڑا کروں اور اپنے آپ سے سوال کروں: ”تم تو رجالِ غیب کے منکر تھے۔ لوگوں سے دلیل مانگتے تھے۔ تمہاری تسلی کے لیے اصول بدل دیا گیا۔

رجالِ غیب کو رجالِ حضور بنا دیا گیا۔ تم بچشمِ سر انہیں دیکھ سکتے ہو۔ عمران خان کی صورت میں ایک تو مردِ غیب کو ظاہر کر دیا گیا۔ جو کچھ تم جیسے عامیوں کو آج پتا چلتا ہے، اسے کئی دن پہلے اس کی خبر ہوتی ہے۔ رجالِ غیب کو اپنی خبریں چھپانا پڑتی ہیں۔ اگر جاوید ہاشمی جیسے کسی ناتراشیدہ مصاحب کو بھنک پڑ جائے تو اس کا وجود خبر کو سہار نہیں سکتا۔ کیا رجالِ غیب پر ایمان کے لیے تمہیں کسی مزید شہادت کی ضرورت ہے؟‘‘ نگاہِ مردِ مومن سے کس طرح تقدیریں بدلتی ہیں، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ میں آئینے کے سامنے کھڑا ہونے سے گریزاں ہوں۔

خواجہ آصف صاحب کے خلاف فیصلہ آیا تو میں نے اُسی بوجھل دل کے ساتھ پڑھا، جس بوجھل دل کے ساتھ اسے لکھا گیا۔ میرے جذبات بھی وہی تھے جو دوسروں کے تھے: لاکھوں افراد کا نمائندہ اس سلوک کا مستحق تو نہیں تھا۔ میں جج صاحبان کے دل کا حال نہیں جانتا لیکن اپنے دل کا حال جانتا ہوں۔ میری آنکھوں پہ تو وہی جمہوریت کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں تو فیصلے کو اسی فرسودہ اور متروک سوچ کے تحت دیکھ رہا تھا جو یہ کہتی ہے کہ سیاسی مسائل کے فیصلے عوامی عدالتوں میں ہونے چاہئیں۔ عدالت کا مشورہ بھی یہی ہے جس طرح فیصلے میں لکھا گیا۔

میں یہ خیال کرتا تھا کہ ریاستی اداروں کے بارے میں یہ تاثر کسی طور پیدا نہیں ہو نا چاہیے کہ وہ سیاسی کشمکش میں فریق ہیں۔ ملکی سلامتی اور قومی یک جہتی کا تقاضا ہے کہ ان اداروں کی غیر جانب داری پر کوئی سوال پیدا نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ میں غلط تھا۔ جمہور کے نمائندے اس قابل نہیں کہ ان کی بصیرت اور دیانت پر اعتماد کیا جائے۔ جب دیگر اداروں میں اہل اور دیانت دار موجود ہیں تو یہ کوتاہ نظری اور ملک دشمنی ہو گی کہ ان کی طرف رجوع نہ کیا جائے۔ احتساب کے لیے انتخابات کا انتظار کیا جا سکتا ہے نہ اس عمل پر بھروسا ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے متبادل اور یقینی ذرائع موجود ہیں تو ان کو کیوں نہ آزمایا جائے۔ عوام تو ‘کالانعام‘ ہیں۔

کسی انقلاب اور کسی ارتقا کے بغیر تبدیلی آ چکی۔ یہ رجال الغیب کا قصہ ہو یا جمہوریت کا خبط، میرے خیالات کی تو اصلاح ہو چکی۔ رجالِ غیب کو بچشمِ سر دیکھنے کے بعد، وہی انکار کر سکتا ہے جو بے بہرہ ہو۔ جمہوریت کی بات وہی کر سکتا ہے جو سسیلین مافیا کو برِسراقتدار دیکھنا چاہتا ہو۔ جمہوریت کی کمزوری کا اب ایک نیا ثبوت بھی ہاتھ گیا۔ جب ن لیگ اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ اس کا راستہ روکنے کا ہمہ جہتی منصوبہ سامنے آ چکا۔ نوازشریف شدید مشکلات کا شکار ہیں۔اس عالم میں امریکی اخبار’ وال سٹریٹ جرنل‘ کا سروے سامنے آتا ہے جو اس جمہوریت کو پوری طرح بے نقاب کر دیتا ہے۔

یہ سروے کہتا ہے کہ ن لیگ آج بھی سب سے مقبول جماعت ہے۔ اسے اپنے قریب ترین حریف تحریکِ انصاف پر بارہ فی صد کی برتری حاصل ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر عوامی رائے کے غیر ثقہ ہونے کی کوئی دلیل پیش کی جا سکتی ہے؟ملک کے معتبر ادارے ایک آدمی کو گاڈ فادر کہہ رہے ہیں اور عوام ہیں کہ مان کر نہیں دے رہے۔ اب ملک و قوم کے مسائل کھیل تماشا تو نہیں کہ ان کا حل اس طرح کے عام پاکستانیوں کی بصیرت پر چھوڑ دیا جائے۔ جمہوریت کو قابل بھروسہ بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے: اس سے پہلے کہ بات عوام تک پہنچے، سیاسی ماحول کی تطہیر کر دی جائے۔ عوام کے پاس یہ انتخاب ہی نہ ہو کہ وہ کسی سسیلین مافیا کے رکن کو ووٹ دیں۔

خواجہ آصف کے نااہل ہونے سے کم از کم سیالکوٹ کے عوام کے لیے تو آسانی پیدا ہو گئی۔ تو کیا خانیوال کے عوام سوتیلے ہیں؟ کیا انہیں بھی یہ سہولت میسر نہیں ہونی چاہیے؟ یقیناً۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سب سے یکساں معاملہ ہو۔ جب جرم ایک ہے تو سزا مختلف کیوں ہو۔ جرم تو ہم جان گئے: اقامہ۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ گاڈ فادر سے نیچے تک، اس گروہ کا یہی کوڈ تھا۔

انتخابات سے پہلے تطہیر کا عمل شروع ہو چکا۔ میرے کان ایک آواز کے منتظر ہیں۔ کسی لمحے کوئی پکار سکتا ہے: ”احسن اقبال حاضر ہو!‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے