سات برس پہلے، جب امریکا پاکستانی حدود میں در اندازی کرتے ہوئے اسامہ تک پہنچا تھا

نائین الیون سے قبل امریکی بحری جہاز کول اور افریقہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملے میں ملؤث القاعدہ کے ایک رکن خالد بن عطاش کو جب 2002ء میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تو اسامہ کی تلاش کے حوالے سے یہ پہلی مثبت پیش رفت تھی۔

یہی وہ فرد تھے جنہوں نے ابو احمد علی کویتی کی نشاندہی کی۔ یہ پاکستانی نژاد کویتی اسامہ بن لادن کے دستِ راست اور پیغام رساں ہونے کے علاوہ اسامہ بن لادن کی طرف سے امریکی اراکین کی قیادت کا کام بھی کرتے تھے۔

خالد کی فراہم کردہ اطلاعات کی روشنی میں جب کویتی انٹیلیجنس سروس سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کرسکی۔

ایک ذرائع نے مذکورہ رپورٹ کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ 2009ء سے نومبر 2010ء کے عرصے میں اس شخص کی تلاش کے دوران سی آئی اے نے پاکستان کو چار ٹیلی فون نمبر فراہم کیے، لیکن کسی تفصیل کے بغیر کے وہ کس فرد کو تلاش کررہے ہیں۔

یہ تمام ٹیلی فون نمبر زیادہ تر بند رہتے تھے، لیکن آئی ایس آئی نے سی آئی اے پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ تفصیلات جانے بغیر کہ یہ نمبر کس کے ہیں یہ کام مشکل ہوگا۔

ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے اب کمیشن کی رپورٹ نے تصدیق کردی ہے کہ عطاش کے انکشاف کے مطابق کویتی اسامہ بن لادن کا دستِ راست تھے۔

کمیشن نے جو کچھ دریافت کیا ہے، اس کے مطابق کویتی اسامہ بن لادن کے خاندان کے ہمراہ کراچی میں اکتوبر یا نومبر 2001ء سے مقیم تھا۔

جب 2002ء کے دوران اسامہ بن لادن کا خاندان، جس میں ان کی بیویاں بھی شامل تھیں، پشاور چلاگیا، تو اس وقت کویتی بھی ان کے ہمراہ تھا۔ پھر 2002 کے وسط میں اسامہ بن لادن بھی ان سے آن ملے تھے۔

یہاں سے پھر وہ سوات چلے گئے جہاں اسامہ بن لادن نے خالد محمد شیخ سے ملاقات کی تھی۔

ایک مہینے کے بعد خالد محمود شیخ کو راولپنڈی میں گرفتار کرلیا گیا، چنانچہ خوف کے باعث فوری طور پر اسامہ کے خاندان کو ہری پور منتقل کردیا گیا۔

کویتی اور ابرار فرار ہوکر سوات میں اکھٹا ہوگئے، جہاں اسامہ بن لادن بھی موجود تھے، پھر یہ سب 2005ء تک ہری پور میں مقیم رہے۔

اور پھر یہ لوگ ایبٹ آباد منتقل ہوگئے، جس کی منصوبہ بندی اور انتظامات کویتی نے کیے۔ ایک ذرائع نے مشروط طور پر بتایا کہ کویتی نے ہی ایبٹ آباد میں ایک جعلی شناختی کارڈ پر ایک پلاٹ خریدا اور اس پر گھر کی تعمیر کی نگرانی بھی کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تین کمپلیکس پر مشتمل تھا، ایک اوپن کمپاؤنڈ، ایک ملحقہ گھر جس میں کویتی اور اس کا گھرانہ رہتا تھا، جبکہ مرکزی حصہ تین منزلہ گھر پر مشتمل تھا۔

دونوں بالائی منزلیں اسامہ بن لادن اور اُن کی فیملی کے زیراستعمال تھیں۔ان کی سب سے چھوٹی بیوی کا قیام دوسری منزل پر تھا، جبکہ ان کی پُرانی بیویاں شریفہ اور خائرہ، پہلی منزل پر مقیم تھیں۔

کویتی کا بھائی ابرا اور اس کی بیوی اسی گھر کے گراؤنڈ فلور پر پر رہتے تھے۔ اس گھر کی تعمیر اس طرح کی گئی تھی کہ ابرار کے بچے اسامہ بن لادن کو نہیں دیکھ پائے تھے۔

ایبٹ آباد کمیشن کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ سوات، ہری پور یا ایبٹ آباد میں قیام کے دوران اسامہ بن لادن نے کبھی ٹیلیفون لائن، انٹرنیٹ یا کیبل کنیکشن کبھی استعمال نہیں کیا۔ اگرچہ ایک سے زیادہ شہروں میں جہاں ان کی فیملی کا قیام رہا، ایک ڈش الجزیرہ چینل دیکھنے کے لیے ان کے استعمال میں ضرور رہی۔

کمیشن کی نشاندہی کے مطابق ایبٹ آباد کے مذکورہ گھر میں رہنے والوں کے غیرقانونی قیام سے مقامی سطح پر حکام لاعلم رہے۔

مثال کے طور پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ عام اور دستی شناختی کارڈ زمین کی خریداری کے لیے استعمال کیا گیا، جبکہ نادرا کی جانب سے 2004ء میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کا استعمال لازم ہوچکا تھا۔

ذرائع نے کہا کہ عام شناختی کارڈ جو متروک ہوچکا تھا، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، کنٹونمنٹ بورڈ اور دوسرے اداروں کی طرف سے قبول کرلیا گیا۔مزید یہ کہ شناخت اور ایڈریس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔ تیسری منزل کی تعمیر عمارتی قوانین کی خلاف ورزی تھی، لیکن اس حوالے سے بھی حکام نے کوئی مداخلت نہیں کی۔

کمیشن نے مزید نشاندہی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس گھر کی قلعہ نما تعمیر پر کنٹونمنٹ بورڈ، پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور مقامی لوگوں کا دھیان نہیں گیا۔ اس کے علاوہ اس گھر کے مکینوں کی طرف سے پراپرٹی ٹیکس کی 2005ء سے عدم ادائیگی بھی حکام کی توجہ اس جانب مبذول نہ کرواسکی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے