مزدوروں کا استحصال کون کر رہا ہے؟

یہ سال 1886 کا تھا ، وہ اپنے حقوق کےلئے نکلے تھے ، مطالبہ کر رہے تھے کہ 8 گھنٹے کا م کریں گے ، شکاگو میں مزدوروں کا جم غفیر تھا کہ اس شور میں ایک زور دار دھماکہ ہوا 4 مزدور زندگی کی بازی ہار بیٹھے ، Hey market square پر خون پھیل گیا، رہی سہی کسر پولیس نے پوری کر دی اس بھگ در کے عالم میں سنساتی گولیاں کئی سینے چھلنی کر کے ان مزدوروں کی نہ صرف آواز کو خاموش کرا دیا گیا بلکہ انھیں مزدوری کے عذاب سے ہمیشہ کےلئے آزاد کر دیا گیا ، صنعتکاروں کی جانب سے مزدور یونین کے رہنماوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ، یہی وہ وقت تھا جب مزدوروں کے حقوق اور استحصال کا بڑا سانحہ ایک ہی وقت میں رونما ہوا، سولی پر چڑھنے والے رہنماوں کا کہنا تھا ’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ‘‘نتیجہ یہ ہوا کہ مزدوری کے اوقات کار طے کر لیے گئے ، تب سے تقریبا ابتک مزدوری کا وقت 8 گھنٹے مقرر ہے۔

1400 سال پہلے اسلام نے بھی مزدوروں کے حقوق متعارف کرائے ، مزدوروں کے استحصال کی نفی کی اور محنت میں عظمت ہے کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ خود محنت و مزدوری کر کے مزدور اور مزدوری کو دوام بخشا ، نبی رحمت نے مزدور کے ہاتھ کا بوسہ لیا ” ایک دن پیغمبر خداؐ کی ملاقات ایک ایسے مزدور(کاریگر) سے ہوئی جس کے ہاتھوں پر کام کرنے کی وجہ سے گھٹا پڑا ہوا تھا ، تو آپ نے اس کے ہاتھ کو اٹھا کر اپنے دست مبارک پر رکھا اور چوم لیا ۔(سیرہ نبوی مصطفی دلشاد ، العمل و حقوق العامل فی الاسلام ، ص۳۰۵ (پھر فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مزدوروں کےلئے قوانین وضع کیے گئے ہیں ،دستورپاکستان کا آرٹیکل 11، 17، 18،25، 37(e) مزدوروں کے قوانین سے متعلق ہیں ، آئین کے آرٹیکل 11کے تحت 14سال سے کم عمر بچے کو کسی بھی کارخانے، کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائیگا، آرٹیکل 17کے تحت مزدوروں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے انجمن سازی کی اجازت دی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 18کے تحت شہریو ں کو جائز پیشہ ، تجارت یا اجرت کی اجازت دی گئی ہے، آرٹیکل 25کے تحت جنس کی بنا پر فرق اور امیتاز کا خاتمہ کیا گیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 37(e)کے تحت بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہیں لیا جائیگا۔ جو ان کی عمر اور جنس کے لیے نامناسب ہوں،اور خواتین کو ز چگی کے دوران رخصت دی جائیگی اسکے علاوہ ایکٹ 1923 سے لیکر ایکٹ 2011 تک کئی ایک ایکٹ بنائے گئے تاکہ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جا ئے

پاکستان میں مزدوروں کی تعداد 6 کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ مزدور بچوں کی تعداد بھی ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے ، آسٹریلیا کی تنظیم ’واک فری فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے جاری کی گئی 2016 گلوبل سلیوری انڈیکس میں کل آبادی میں غلامی جیسی زندگی گزارنے والوں کے تناسب کے لحاظ سے دنیا کے 167 ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے جس میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے، تاہم وہ ممالک جن میں جدید غلامی کے شکار افراد کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے، ان میں بھارت سرفہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر چین، تیسرے پر پاکستان، چوتھے پر بنگلہ دیش جبکہ ازبکستان کا نام پانچویں نمبر ہے، پاکستان کے حوالے سے دیے گئے اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ وہاں اندازاً 21 لاکھ 34 ہزار نو سو افراد غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں جو پاکستان کی آبادی کا 1.13 فیصد ہے۔جدید غلامی کی صورتوں میں قرض کے بدلے مفت غلامی، بچوں کی غلامی، زبردستی شادی، گھریلو مشقت اور جبری مشقت شامل ہیں، جہاں غلامی کے شکار افراد کو تشدد یا ڈرا دھمکا کر کام پر مجبور کیا جاتا ہے اور غلامی جیسی زندگی گزارنے والوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔

اس تمام تر صورتحال کے بعد یکم مئی 2018 کو ایک بار پھر مزدوروں سے تجدید عہد کا دن منایا جا رہا ہے کہ انکا استحصال نہیں کیا جائے گا ، یہ دن مزدوروں کو منایا چاہیے یا مزدوری دینے والوں کو اس کا جواب تو یہی ہے کہ مزدوروں کو منانا چاہیے مگرکیا ان حالات میں مزدور یہ دن منا پائیں گے ؟ یہ دن تو کیا مزدور تو بچایرا کوئی بھی دن نہیں منا پاتا اسے تو مزدوری کی تلاش میں دیس بدیس کی خاک چھاننا ہوتی ہے ، اسے تو صبح سے شام تک صرف اور صرف دو وقت کی روٹی کےلئے مزدوری کرنا ہوتی ہے ، اس بچے کی ایک خواہش پوری کرنے کےلئے 8 کے بجائے 12 اور 16 گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے ، اور یوم مزدور پر ہوگا یہ کہ سب حکومتی اداروں میں تو چھٹی ہوگی لیکن مزدور پھر مزدوری کی خاطر سڑکوں پر رلتا نظر آئے گا ، رہی بات مزدوروں کی مزدوری کی تو استحصال تو چھوٹی سی بات ہے اجرت ہی نہیں دی جاتی ، وہ بچے جن کی عمر مور کے پروں سے کھیلنے کی تھی تپتی دوپہروں میں بھٹوں پر چلچلاتی دھوپ میں اینٹیں بناتے اور اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔ آخر ی بات بس یہی ہے کہ یہ جو میڈیا کے مزدور ہیں نا جو دن رات کو آپکو باخبر رکھتے ہیں استحصال تو انکے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہ خبر کم ہی عوام تک پہنچتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے