نواز شریف: بیان کے عوامل اور محرکات

عماد ظفر کا ویڈیو بلاگ دیکھنے کے لیے پلے کے نشان پر کلک کیجئے .

https://www.youtube.com/watch?v=rCFWYwPB3J0 

نواز شریف اور "خلائ مخلوق” کے درمیان تناو میں کوئ رہی سہی کثر باقی بچی تھی تو وہ نواز شریف کے ڈان اخبار کو دئیے جانے والے انٹرویو کے بعد پوری ہو  گئ ہے ۔ معروف صحافی سیرل المائدہ کو دئیے گئے انٹرویو میں نواز شریف نے نہ صرف اس بات کی جانب توجہ دلائ کہ پاکستان میں منتخب حکومتیں بے اختیار ہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی بول ڈالا کہ جب ہماری سرزمین سے کوئ سرحد پار جا کر 150 بندوں کو مار ڈالے گا تو پھر دنیا ہمارے بیانئیے کو  نہ تو قبول کرے گی اورنہ ہی  دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری  قربانیوں کو سراہے گی۔ نواز شریف کا یہ پوائنٹ مشہور ممبئ حملوں  کے بارے میں تھا جس میں ملوث مرکزی مجرم اجمل قصاب نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس کو ذکی الرحمن لکھوی نے مالی معاونت فراہم کی تھی۔ نواز شریف چونکہ تین بار ملک کے منتخب وزیراعظم رہ چکے ہیں اس لئیے ان کی جانب سے بولے گئے ان کلمات کو  عالمی میڈیا بالخصوص بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا اور اسے ایک طرح سے ممبئ حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا اعتراف قرار دے دیا۔ 

نواز شریف کے اس بیان کے بعد اگر مسلم لیگ نون کو  آئندہ انتخابات میں کوئ تھوڑی بہت سپیس ملنے کا کوئ امکان موجود بھی تھا تو وہ ختم شد ہو گیا ہے۔ روایتی طور پر پاکستان میں آج تک کسی مرکزی رہنما نے کھل کھلا کر دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کی پالیسیوں پر اس قدر  نکتہ چینی نہیں کی ہے اور کالعدم تنظیموں کے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بھی کسی مرکزی رہنما نے آج تک اس طرح کھل کر بیان نہیں کیا ہے۔ نواز شریف کے اس بیان کے بعد جلد ہی  ان کے خلاف میڈیا میں ایک بھرپور مہم کا آغاز ہو جائے  گا جس میں نواز شریف کو بھارت نواز اور مودی کا یار ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا۔ یعنی عدلیہ اور نیب کے زیر عتاب نواز شریف کو اب ایک نئے محاذ کا سامنا پڑے گا ۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اس موقع پر کہ جب وہ ہر طرح سے خلائ مخلوق کے گھیرے میں پھنسے  ہوئے ہیں ایسا متنازعہ بیان کیوں دیا یے؟ نواز شریف کی زندگی سیاست  کے میدان میں بسر ہوئ ہے اور شاید ان سے بہتر یہ بات کوئ نہیں جان سکتا کہ اس بیان کا مطلب سیدھا سیدھا دفاعی ایسٹیبلملیشمنٹ کے بیانئیے اور قومی معاملات پر ان کی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے ان سے براہ راست ٹکر لینا ہے۔ ابھی تک نواز شریف اشاروں کنایوں میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے سیاسی کردار پر تنقید کر رہے تھے لیکن اب انہوں نے نہ صرف کھل کر دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ ہر تنقید شروع کر دی ہے بلکہ ڈان اخبار کو دئیے گئے اس تازہ انٹرویو کے بعد انہوں نے دفاعی بیانئیے کو بھی چیلنج کر دیا ہے۔ یہ بات خارج از امکان ہے کہ نواز شریف اپنے دئیے گئے اس بیان کے رد عمل سے واقف نہ ہوں گے ۔

 اس بیان کے بعد نہ صرف پاکستان کی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ پر "ڈو مور” کا تقاضہ بڑھے گا بلکہ  عالمی طاقتعں کی جانب سے ذکی الرحمن اور دیگر شدت پسند افراد کو بھی سزا دینے کا تقاضہ کیا جائے گا۔ نواز شریف کے اس بیان کی ٹائمنگ بھی انتہائ اہم ہے  عالمی سیاست کے پس منظر میں یہ  بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان شدید تناو کی کیفیت ہے اور دوسری جانب حال ہی میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے بھارتی ایسٹیبلیشمنٹ کو امن کی بحالی اور مذاکرات کا پیغام دیا گیا تھا ۔ دوسری جانب ملکی سیاست میں حال ہی میں نواز شریف پر بھارت میں چار اعشاریہ نو  بلین ڈالرز غیر قانونی طور پر بھیجنے کا مضحکہ خیز الزام لگایا گیا تھا۔ عالمی اور ملکی سیاسی حالات کے پس منظر میں اگر نواز شریف کے اس بیان کو دیکھا جائے تو اسے  سیاسی و جنگی حکمت عملی میں  ریٹلیئشن  یعنی جوابی وار کہا جاتا ہے۔ جب حریف میدان جنگ میں آپ کو دیوار کے ساتھ لگا دے تو پغر دفاعی حکمت عملی اپنانے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے ریٹیلئیٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی حکمت عملی اپناتے  ہوئے نواز شریف کو اچھی طرح ادراک ہو گا کہ اب دوسری جانب سے نواز شریف کے   اس بیان  کو لیکر وطن کی بدنامی کا رونا رونے والوں کے جذبات کو بھڑکانے کیلئے ایک مربوط مہم کا آغاز کر دیا حائے گا اور مسلم لیگ نون توہین رسالت کے جرم کی مہر ثبت کروانے کے بعد "غدار اور وطن دشمن” جماعت کا ٹیگ بھی اپنے نام  کروا  لے گی۔ 

اگر ان تمام خطروں کو بھانپتے ہوئے بھی نواز شریف جیسے ٹھنڈے مزاج کے سیاستدان نے یہ انتہائ  قدم اٹھایا ہے تو پس پشت قوتوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ کہیں نواز شریف کو ہر قیمت پر سبق سکھانے کی چاہ میں ہم ایک اور سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے کی جانب تو پیش قدمی نہیں کر رہے ہیں۔؟  ایک سیاسی رہنما اور تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم بننے والا شخص اگر  دفاعی بیانئیے اور ان کے سیاسی کردار سے بغاوت پر آمادہ ہو چکا ہے تو کیا ان محرکات کو جانچنے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے جن کے تناظر میں نوبت یہاں تک آن  پہنچی ہے۔ سیاسی  وارفئیر (جنگ) میں  جب آپ کو کوئ راہ نہیں ملتی  اور ہر ممکن طریقے سے جب آپ کو دبایا جاتا ہے تو پھر آپ سب ورثن (Subversion ) یعنی بغاوت کی راہ اپناتے ہیں۔  اگر پہلے شیخ مجیب ، ذوالفقار  بھٹو اور اب نواز شریف نے ایک بیانئیے اور مخصوص مائنڈ سیٹ  کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ہے تو اس بیانئیے اور مائنڈ سیٹ کے علمبرداروں کو بھی اپنے اقدامات اور کردار پر غور و خوص کی اشد ضرورت ہے۔  رہی بات پاکستان کی جگ ہنسائ کی تو پرویز مشرف نے  خود اپنی لکھی گئ کتاب میں امریکہ کو پاکستانی باشندے بیچنے کا اعتراف کیا تھا ۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملوں کے بعد لشکر طیبہ پر پابندی بھی عائد کی تھی۔ ریمنڈ ڈیوس کی آپ بیتی ہی پڑھ لیجئیے جس میں اس نے جنرل پاشا سمیت کئ اہم ذمہ داروں کو باقاعدہ اس کی رہائ کیلئے مقتولین کے ورثا پر دباو ڈالنے کا مرتکب قرار دیا تھا۔ 

ہماری تاریخ ایسے کارناموں سے بھری پڑی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ایک منتخب نمائندہ بھارت کو امن کی پیشکش کرے یا اپنے وطن میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی نشاندہی کرے تو وہ غدار کہلاتا ہے جبکہ یہی سب اگر ایک آمر یا وردی میں ملبوس فرد کرے تو وہ محب وطن بھی کہلاتا ہے اور "شکریہ” کا حقدار بھی ٹھہرتا ہے۔  رہی بات قومی وقار کی ، تو ایچ ون ویزہ لیکر امریکہ میں بسنے کی خواہشات لئیے اور بھارتی موسیقی اور فلموں کے بغیر تفریح کو ادھورا سمجھنے والی عوام  اور امریکہ سے حاصل کردہ ڈالرز کے عوض جنگیں لڑنے والی   قوتوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ حب الوطنی کی آڑ میں پوائنٹ اسکورنگ کر کے انا کی تسکین اور سیاسی فوائد حاصل کریں۔  کیا کوئ بھی باخبر شخص اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے ہاں نان اسٹیٹ ایکٹرز کو اسٹریٹیجک اثاثے مان کر ان کی سرپرستی کرنے کا رجحان موجود نہیں ہے؟ کیا افغان جہاد ڈالر سپانسرڈ نہیں تھا؟ کیا حافظ سعید مولانا مسعود اظہر اور ذکی الرحمن  جیسے افراد سرحد پار پھول بھجواتے تھے؟ کیا کارگک کا مس ایڈونچر پرویز مشرف کی غلط حکمت عملی کا  نتیجہ نہیں تھا؟   اگر پہلے اپنا گھر درست کر کے ترجیحات کو  صیح سمت میں متعین کر لیا جائے تو پھر کسی کے بیان دینے یا  نا دینے سے ہماری جگ ینسائ بھی نہیں ہو گی اور اجتماعی نرگسیت پسندی کو بھی کوئ گزند نہیں پہنچے گی۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو شاید انہیں اب کسی بھی قسم کا اسپیس نہیں ملے گا لیکن اس کے بعد نواز شریف کے ماضی کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید یا شک و شبہ کرنے والے افراد کے پاس اب یہ دلیل باقی  نہیں بچتی کہ نواز شریف "ڈیل” کا طالب ہے یا "اپنا بندہ” ہے۔

 سیاسی لڑائیاں دور رس نتائج کو مد نظر رکھ کر لڑی جاتی ہیں اب بساط سیاست پر نواز  شریف کا حالیہ بیانیہ ان کا ماسٹر اسٹروک ثابت ہوتا ہے یا پھر انہیں بساط سے باہر پھینکنے کا موجب بنتا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا فی الحال انہوں نے اپنے اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئیے کو تقویت پہنچاتے ہوئے پس پشت قوتوں کو یہ عندیہ دے دیا ہے کہ اب وہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے فیصلہ کن وار کرنے یا  فیصلہ کن  وار سہنے دونوں صورتوں کا سامنا کرنے  کیلئے تیار ہیں۔ نواز شریف اور پس پشت قوتوں کی لڑائ میں البتہ نقصان صرف اور صرف ریاست پاکستان کا ہو رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ طاقے کی بساط پر لڑی جانے والی لڑائیوں پر وقت صرف کرنے کے بجائے ہر ادارہ اور فرد اپنی آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے صرف اپنے ذمہ واجب فرض ادا کرے اور فریقین ایک  

ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے بجائے ریاست پاکستان کو مضبوط کرنے کی جدوحہد میں  اپنی  توانائیاں صرف کریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے