بھارتی کشمیر:زخمیوں سےہمدردی،مقتولین سے بےاعتنائی؟

سرزمین کشمیر اپنی تاریخ اورجغرافیہ ہی کے اعتبارسے مختلف نہیں بلکہ یہاں اخلاق وکردار بھی بڑا انوکھا ہے بالخصوص ہمارے حکمرانوں اور لیڈروں میں یہ مرض اس قدر گٹھیا اور ناقابل علاج شکل اختیار کر چکا ہے کہ ہر شریف النفس اسے دور بھاگنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے ۔کشمیر میں تحریک کشمیر کے پس منظر میں سیاسی اختلافات نے ’’انسانی قدروں‘‘کو بھی متاثر کردیا ہے اور اس حد تک کر دیا ہے کہ آپ کے تصور سے بھی بالاتر ۔یہاں لوگ سیاسی بنیادوں پر ہی تعزیت اوراظہارِ ہمدردی بھی کرتے ہیں ۔جو جس مسلک ،مکتبہ فکر اور تنظیم سے وابستہ ہے وہ اپنے اُس دائرے میں قابل احترام و عزت تصور کیا جاتا ہے اور جو اسے باہرہے چاہیے وہ کعبۃ اللہ کا امام ہی کیوں نہ ہو ان کو کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے ۔اپنے مسلک ،مکتبہ فکر اور تنظیم کے جاہل کو بھی عالم تصور کیا جاتا ہے جبکہ مخالف مزاج کے ’’عالم دوراں‘‘کو توہین و تضحیک کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے ۔اس بیماری میں یہاں سیکولر ،لبرل اور مذہبی لوگ برابر کے شریک ہیں ۔1990ء سے اس میں اور بھی شدت آئی ہے ۔کہنے کو مذہبی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نبی رحمتﷺ بیمار یہودی کی بھی خبرگیری فرماتے تھے مگر ان کا خود کا حال یہ ہے کہ وہ غیر مسلک یا تنظیم کے فرد کو سلام بھی نہیں کرتے ہیں ان کی مسجد میں جا کر ان کے پیچھے نماز پڑھنا تو بہت دور کی بات ۔یہی بیماری یہاں کے سیکولر اورآزاد خیال حکمرانوں میں بھی اسے بھی بدتر حالت میں سرایت کر چکی ہے ۔ جس کا اندازہ آپ اگلے چند سطور میں اچھی طرح لگا سکتے ہیں ۔

ٹنگمرگ سے متصل کرناٹک کے سیاحوں کی گاڑی سنگبازی کی زد میں آنے کے نتیجے میں ڈرائیور ہوش کھو بیٹھا جس کے نتیجے میں گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور موقع پر ایک نوجوان سیاح کی موت واقع ہوئی، اسے قبل2مئی 2018ء کے دن یہ خبر موصول ہوئی کہ شوپیان میں چند ’’سنگبازوں‘‘نے ایک اسکول بس پر پتھراؤ کیا جس میں چند معصوم بچے زخمی ہو گئے جن میں دو کوگہری چوٹیں آئیں تو انہیں علاج معالجے کے لئے سری نگرمنتقل کیا گیا ۔یہ خبر میڈیا تک پہنچنے کی دیر تھی کہ ہر طرف مذمتوں کا طوفان برپا ہوگیا اور یقیناََ یہ واقع قابل مذمت ہے ۔سری نگر سے لیکر دلی تک ہر فرد اور لیڈر اس کے خلاف خوب بول رہا تھا ۔کچھ میری طرح سوشل میڈیا پر آکر اس کی مذمت کرنے لگے اور کچھ نے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے لئے بیانات جاری کرتے ہو ئے ’’سنگبازوں‘‘کو خوب لتاڑا ۔2مئی 2018ء کی شام کو ٹیلی ویژن چینلز پر اتنا شور شرابا برپا تھا کہ ہر جگہ ایک ہی خبر اور ایک ہی تبصرہ کہ’’کشمیر میں سنگبازوں نے انتہائی خطرناک اور وحشیانہ کام کرتے ہو ئے معصوم طالب علموں کو زخمی کردیا‘‘۔’بے چارے پینلسٹ‘ الفاظ تلاش کرتے ہو ئے سنگبازانِ کشمیر کو جی بھر کر کوس رہے تھے کہ دیکھو کس قدر وحشی اور ظالم لوگ ہیں یہ ایک طرف’’ ملی ٹینٹوں‘‘ کو فوج سے چھڑانے کے لئے پتھراؤ کر کے ان کی مدد کرتے ہیں وہی دوسری طرف اب معصوم اسکولی بچوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔کچھ تجزیہ نگار حکومت کو ہدف تنقید بنانے میں مصروف تھے کہ یہ لوگ سنگبازوں کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کر کے کشمیر کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور رات دیر گئے مجھے اس ساری گفتگو اور بحث و مباحثے میں منافقت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا اور مجھے لکھے پڑھے مکاروں اور انسانی ہمدردی سے محروم جاہلوں کی عقل پر افسوس ہو رہا تھا کیوں؟

یقیناََ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کہیں میں اسکولی بچوں پر پتھراؤ کو جائزتونہیں سمجھ رہا ہوں؟کہ ان کی ہمدردی میں جنہوں نے دو بول بولے اور جنہوں نے سنگبازوں کی مذمت کی میں الٹا انہی کی مذمت کر رہا ہوں بجائے اس کے کہ میں بھی ان کے ساتھ شریک مذمت ہوجاتا میں انہی کو کوس رہا ہوں۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ’’ظلم‘‘کی مذمت کی جانی چاہیے اور مکمل طور پر حوصلہ شکنی بھی ۔چاہیے یہ ظلم ’’مجاہد ‘‘کرے یا فوجی اور پولیس والا ۔نہ کہ یہ کہ جو میرے من مزاج کے مطابق ہو اس ظلم پر خاموشی اور جو من مزاج سے متصادم ہو اس کے لئے جی بھر کر صلواتیں اور بد دعائیں ۔شوپیان ضلع میں 2مئی2018ء کوبہ یک وقت دوواقعات پیش آئے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جنوبی ضلع شوپیان کے زاوورہ علاقے میں بدھ کی صبح یعنی 2مئی کو اس وقت سنسنی پھیل گئی جب اسکولی بچوں کو لے جارہی ایک بس پر نامعلوم افراد نے پتھراؤ کیا۔پتھراؤ کی زد میں آکر دو بچے زخمی ہوئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق شوپیان کے زاوورہ روڑ پر صبح ساڑھے نو بجے نامعلوم افراد نے ’’ریمبو پبلک اسکول شوپیان‘‘ کی بس جودیگام شوپیان کی طرف جارہی تھی پر کچھ نامعلوم افراد نے پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے بس میں سوار معصوم بچے سہم گئے۔اس واقعے میں دو بچوں کو پتھر لگے۔ جن میں سے ایک ریحان احمد گورسی ولد نورالدین گورسی ساکنہ زم پتھری کیلر جوکہ دوم کلاس کا طالب ہے سر پر پتھر لگنے سے زخمی ہوا جسے بعد میں علاج و معالجہ کے لیے سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال منتقل کیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) شوپیان شیلندر کمار مشرا نے کہا کہ بچوں نے گاڑی کے بیشتر شیشے کھول رکھے تھے جس کے نتیجے میں پتھر اندر آئے جس کے نتیجے میں ایک بچہ شدید زخمی ہوا۔ ابتدائی علاج کے بعد اسے سری نگر لے جایا گیا۔

حریت چیرمین سید علی گیلانی نے شوپیان میں اسکولی بس پر پتھراؤ کرنے والے عناصر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تحریک دشمن عناصر پر کڑی نگاہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے جو معصوم اور نہتے لوگوں بالخصوص معصوم بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی گھناؤنی حرکتوں کا ارتکاب کررہے ہیں۔ حریت رہنما نے انقلابی تحریکوں کے لیے کردار کی پختگی، نظم وضبط اور صالح سوچ وفکر کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو قومیں ان اوصاف سے خالی ہوں انہیں دنیا میں غلامی اور ضلالت کے دلدل کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اپنی قوم کے حریت پسند نوجوان نسل سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے حریت چیرمین نے کہا کہ وہ حالات کی نزاکت کو بھانپ لیں۔ ایک طرف دشمن قوتیں کٹھوعہ کی معصوم بیٹی کو اپنی شیطانی ہوس کا نشانہ بناکر انتہائی بے رحمی سے قتل کئے جانے کے واقع کو معمول کا واقع قرار دے کر ہماری انسانی غیرت اور شرافت کو للکاررہے ہیں اور دوسری جانب ہم اپنے نونہال بچوں پر پتھر برساکر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے سے شرم بھی محسوس نہیں کررہے ہیں۔ حریت رہنما نے ایسے شیطانی عناصر کو تحریک دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غاصب طاقتیں ہماری جائز تحریکِ آزادی کو انتشار کے دلدل میں غرق کرنے پر تْلی ہوئی ہیں لہٰذا ہمیں ان کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملاکر ناکام ونامراد بناکر پورے نظم وضبط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ میرواعظ کشمیرمحمد عمر فارق نے شوپیاں میں اسکولی بس کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ جس گاڑی میں اسکولی بچے سوار تھے اسے نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جو افراد اس طرح کی کارروائیوں کو عملاتے ہیں در حقیقت وہ نہ صرف تحریک کو زک پہنچاتے ہیں بلکہ ہمارے مخالفین کوہمیں بدنام کرنے کاموقعہ بھی فراہم کرتے ہیں۔میرواعظ نے کہا تحریک کی حفاظت کرنا ہر ایک کشمیری کا فرض ہے جس کے خاطر آج تک بیش بہا قربانیاں دی جا چکی ہے ۔ محبوبہ مفتی نے واقعہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’شوپیان میں ا سکولی بس پر پتھراؤکے واقعہ کے بارے میں جان کر حیران اور پریشان ہوں۔ اس بزدلانہ حرکت کے ملوثین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘۔ نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے ٹویٹ میں لکھا ’پتھربازوں کو عام معافی دینے کا مقصد مناسب رویہ کو جنم دینا تھا۔ ان میں سے کچھ غنڈے اس معافی کو مزید پتھراؤ کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اسی روز دوسرا واقع اسی شوپیان میں بھی پیش آیاکہ ترکہ وانگام شوپیان میں فورسز اور عسکری نوجوانوں کے درمیان جاری خون ریز جھڑپ کے دوران گولی لگنے سے ایک کمسن طالب علم شہیدہوا جبکہ دس دیگر زخمی ہوگئے ہیں جن میں ایک نوجوان کو انتہائی نازک حالت میں سرینگر منتقل کیا گیا ہے۔کمسن طالب علم کی شہادت کے خلاف شوپیان ،کولگام اور پلوامہ اضلاع میں حالات پھر کشیدہ ہوگئے اور لوگ گھروں سے نکل کر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔حکام نے جنوبی علاقوں میں انٹرنیٹ سہولیات کو معطل کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ترکہ وانگام شوپیاں میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید تصادم کے دوران سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران ایک دفعہ پھر راست فائرنگ سے ایک کمسن طالب علم عمر احمد کمہارر ولد مرحوم محمد عبداللہ کمہار موقعے پر ہی شہیدہوا جبکہ شدید طورپر زخمی ہونے والوں کی تعداد دس بتائی جارہی ہے جن میں عنایت احمد ملہ ساکن ملہ ڈھیرہ شوپیان کو نازک حالات میں سرینگر منتقل کیا گیا۔میڈیاکے مطابق بدھ کی شام پانچ بجے کے قریب فورسز نے شوپیاں کے گنہ پورہ ترکہ وانگام گاؤں کو جونہی محاصرے میں لے کر گھر گھر تلاشی کارروائی شروع کی اس دوران رہائشی مکان میں محصور جنگجوؤں اور فورسز کے درمیان گولیوں کا تبادلہ شروع ہوا۔ معلوم ہوا ہے کہ سخت ترین پابندیوں کے باوجود آس پاس علاقوں کے نوجوان گھروں سے باہر آئے اور فورسز پر پتھراؤ شروع کردیا۔ اس دوران پہلے سے تعینات فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے اشک آور گیس کے گولوں کے ساتھ ساتھ پلیٹ فائرنگ کی۔ ذرائع نے بتایا کہ پلیٹ اور بلٹ فائر کرنے کے نتیجے میں دس کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔ رات دیر گئے عسکری نوجوان محاصرہ توڑ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ایک معصوم طالب کی شہادت اور دیگر دس زخمی نوجوانوں کے زخمی ہونے کی کسی نے بھی مذمت نہیں کی ۔

اس طویل تفصیل کے بعد اب آئے اصل بحث کی طرف جس کا اشارہ ہم نے ابتدا میں کیا تھاکہ آخر ہمارے سیاستدانوں اور لیڈروں کے ہاں اصول کیا ہیں ؟ان کے نزدیک ظلم کیا ہے اور انصاف کیا ہے ؟ایک ہی دن میں دو واقعات اور سانحات پیش آئے۔پہلے واقع کی ہر طرف سے مذمت کی گئی اور یقیناََ کرنا ضروری تھی مگر افسوس صد افسوس کہ دوسرے سانحہ پر خاموشی اختیار کی گئی ۔سب سے پہلے ہم یہاں سنگ بازی سے متعلق چند باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔آپ کو یاد ہوگا سب سے پہلے شہیدمولانا شوکت احمد شاہ صدر جمیعت اہلحدیث جموں وکشمیر نے سنگبازی کی مطلق مخالفت کی تھی جس پر بعض حلقوں کی طرف سے شوکت صاحب کی کھل کر مذمت کی گئی ۔کچھ نے دبی زبان میں اور کچھ نے کھلے عام ،حتیٰ کہ بہت سارے لوگوں نے شوکت صاحب کو انڈین ایجنٹ قراردیکر بلاآخر موت کے منہ میں دھکیل دیا مگر بہت کچھ جاننے کے باوجود آج بھی ان کے قتل کو بعض بد طینت افراد و اصحاب نے صرف اس لئے مشکوک بنا رکھا ہے کہ وہ ان کے من مزاج کے مطابق بات نہیں کرتے تھے یا ان کی وہ من مانی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔سنگ بازی نے 2008ء کے بعد خاصا جارحانہ رُخ اختیار کر رکھا ہے ۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی طرح کے ’’پر امن احتجاج‘‘کی کشمیریوں کواجازت نہیں دیتی ہے جبکہ بانہال کے اس پار اس طرح کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے ۔وہاں لوگ وزیر اعظم اور صدر مملکت کے گھر کے سامنے بھی احتجاج کر سکتے ہیں ۔یہاں شہر تو شہر گاؤں میں بھی احتجاج کی اجازت نہیں ہے حتیٰ کہ کشمیر کی بہادر پولیس ’’معذورین اور اندھوں‘‘کو بھی احتجاج کرنے کی اجازت فراہم نہیں کرتی ہے کیوں ؟اس لئے کہ یہ کشمیر ہے اور کشمیر میں ’’زبان بندی کا دستور دلی والوں نے لاگو کر رکھا ہے اور کشمیر پولیس یہ سمجھتی ہے کہ وہ کشمیر کے نہیں دلی کے ملازم ہیں لہذا اس وفاداری کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

گزشتہ دس برس میں ہورہی سنگبازی اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں اس کو لیکر اب بہت پریشان ہیں کہ آخر ایک نہتا انسان آپریشنل ایریامیں آکر اپنی جان کو کیوں خطرے میں ڈال رہا ہے ؟پہلے پہل دلی والوں نے اس کے تانے بانے ’’پاکستانی پیسوں‘‘کے ساتھ جوڑ دئے مگر اب NIAکے آپریشن کے ختم ہونے بعد وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئے کہ سنگبازی کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے ۔چند روز قبل اسلام آباد کو دو چھوٹے قصبہ جات عیش مقام اور سری گفوارہ میں بھی پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جب ’’میلوں‘‘میں مصروف لوگوں کی بھیڑ میں نوجوانوں نے چند پولیس والوں کو دیکھا گویا اب ہمارے نوجوان پولیس کو دیکھتے ہی گویا الرجی کے شکار ہو جاتے ہیں اور یہ معاملہ پولیس کے اعلیٰ افسران کے خود سمجھنے اور غور کرنے کا ہے ہمارا نہیں ۔البتہ افسوس اس بات کا کہ ہے اب ہمارے ہاں سنگ بازی بھی تمام تر حدود قیود کو توڑ کر خوفناک رُخ پر جا رہی ہے ۔2010ء کے بعد2016ء میں میں نے نوجوانوں سے کئی مقامات پر یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ آپ سنگبازی کو نہ اپنا شعار بناؤ اور نا ہی مشغلہ اور جیسا کہ گیلانی صاحب نے بہت پہلے کہا تھا کہ نوجوان پتھراٹھانے پر تب مجبور ہو جاتے ہیں جب انہیں پر امن احتجاج سے زبردستی روکا جاتا ہے ۔ہم نے کئی مرتبہ یہ دیکھا کہ نوجوان ہڑتال میں بسااوقات عوام الناس سے انتہائی سختی کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔حتیٰ کہ اپنے ہی بھائیوں کے گاڑیوں اور ہسپتالوں کی ایمبولینسوں کی بھی توڑ پھوڑ کی جاتی ہے اور 2016ء میں نوجوانوں نے تمام تر ریکارڈ اسی طرح توڑ دئے جس طرح پولیس نے انتقام میں نہ صرف گھروں اور گاڑیوں کو نشانہ بنانے کی مہم چھیڑی بلکہ بجلی ٹرانس فارمروں تک کو گولیوں سے نشانہ بنا کر تباہ کردیا گیا ۔احتجاج سے انکار نہیں مگر اس کو اپنی ہی عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہو سکتا ہے ۔ اگر 2مئی کے روز کسی پتھر سے کوئی بچہ مارا جاتا یا خوف زدہ ہو کر مرجاتا تو کشمیری قوم کس قدر شرمندہ ہو جاتی ۔

حریت قیادت، حکومت اور پولیس کے جارحانہ رویے سے تنگ آکر بعض مسائل پر چپ سادھ لیتی ہے مگر یہ معاملات اب دن بہ دن خوف ناک حدود کو چھو رہے ہیں ۔اس کی ایک تازہ مثال طلباء کا دو مہینوں سے جاری احتجاج ہے ۔میں نے لیڈران سے ذاتی طور پر اس اشو پر راست گفتگو کرنے کی گزارش کی تھی مگر میں یہ دیکھ کر مایوس ہوا کہ وہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں بلکہ سنی ان سنی کردیتے ہیں۔دومہینوں سے جاری احتجاج ’’آصفہ‘‘ کے وحشیانہ قتل پر ہو رہا ہے ۔طلبا آصفہ کی مندر میں عصمت ریزی کے بعد قتل کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار میں یہ بھی بھول رہے ہیں کہ وہ جس حکومت سے انصاف اور جسٹس کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کے ہاں اس کے لئے ایک ’’نظام ‘‘ہے ہمیں اس نظام سے لاکھ اختلاف صحیح مگر ہم نے درست نظام کے نفاذ تک اسی میں ایسے وحشیانہ جرائم کے سدباب کا راستہ ڈھونڈنا ہوگا ۔حکومت نے ملزمین کو گرفتار کر کے تحقیقات مکمل کر لی ہے ۔کیس عدالت میں ہے جہاں شنوائی کے بعد نئے قانون کے مطابق دو مہینوں میں اس پر فیصلہ آنے والا ہے ۔ہم چاہیے جتنا بھی احتجاج کریں یہ فیصلہ عدالتی لوازمات کے پورا ہونے اور چند تیز سماعتوں کے بعد آ ہی جائے گا لہذا پوچھا جا سکتا ہے کہ ہمارے طلبا گذشتہ دو مہینوں سے باربار کلاسز چھوڑ کر کیوں احتجاج کر رہے ہیں ؟ہاں یہ ضرور ہے کہ محدود وقت کے احتجاج جو پتھراؤ کے بغیر بھی ہو سکتا ہے کو حکومت پر دباؤ بنائے رکھنے کے لئے جاری رکھنا ضروری ہے جو کلاسز کے ختم ہونے کے بعد صرف دس بیس منٹ کے لئے بھی کیا جاسکتا تھا تاکہ حکومت اور بیروکریسی میں لال سنگھ جیسے لوگوں کے دباؤ کا توڑ کر کے مجرمین کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے اس لئے کہ یہاں چپ سادھ لینے پر آصفہ ،آسیہ اور نیلوفر جیسے کیس ہمیشہ کے لئے ختم کئے جا سکتے ہیں البتہ اب ہماری نئی نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ’’کشمیر کی تحریک‘‘کا مقصد طویل المدتی جدوجہد کا متقاضی ہے اس میں ’’شارٹ کٹ‘‘تلاش کر کے فوری نتائج تک پہنچنے سے ہم ہی تھکیں گے دلی والے نہیں ۔شارٹ کٹس سے ہمیں نقصانات سے دوچار ہونے کا خطرہ موجود ہے اور ہمارا حریف یہی چاہتا ہے کہ ہم صبر کے بجائے عجلت ،اعلیٰ اخلاق کے برعکس بد اخلاقی ،بلندکردارکے بجائے پستی ،اپنوں سے اخوت و غمگساری کے بجائے نفرت اور تشدداور اطاعت کے بجائے بغاوت کا مظاہرا کریں ۔ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل میں تحلیل ہونے کے بجائے اعلیٰ کردار کے ساتھ کھڑا رہنا ہوگا ۔اور یاد رکھنا ہوگا کہ احتجاج کرتے ہو ئے ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نا ہو جو ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنے اور ہمارا دشمن پورے عالم میں ہمارے خلاف تماشہ برپا کر دے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے