اِبن بطوطہ اور شیخ مرُشدی

پچھلے دو کالموں میں ابن بطوطہ کے ذاتی حالات ، مراکش کا واقعہ، کچھ سفر کے حالات، اسکندریہ میں شیخ مُرشدیؒ ولی اللہ سے ملاقات اور ان کی پیش گوئی، ہندوستان پہنچنے کا سفر، دہلی میں محمد تغلق بادشاہ ہند کے اور دہلی کے واقعات اور بادشاہ محمد تغلق کے بیٹے سلطان محمد شاہ کا اپنے والد محترم کو عیّاری سے قتل کرانے کے مختصراً واقعات بیان کئے تھے۔ سلطان محمد شاہ، بادشاہ ہند نے ابن بطوطہ کو بہت سے تحفہ تحائف دے کر شہنشاہ چین کو پیش کرنے کیلئے چین روانہ کیا۔ یہ حکایت آپ ابن بطوطہؒ کی زبانی سُنئے: کہیں جگہ کی وجہ سے مختصر کردی ہے۔ 

’’جب میں بادشاہ کے پاس پہنچا میری پہلے سے بھی زیادہ تعظیم کی اور فرمایا کہ میں تجھے اپنی طرف سے سفیر بنا کر بادشاہ چین کے پاس بھیجتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تجھے سفر اور گردش کا بہت شوق ہے۔ بادشاہ نے سفر کا تمام سامان مہیا کردیا اور میرے ہمراہ جانے کے لئے آدمی مقرر کئے۔ بادشاہ چین نے بادشاہ کے پاس سو غلام اور لونڈیاں اور پانچ سو تھان کم خواب کے جن میں سو شہر زیتون کے بنے ہوئے تھے اور سو شہر خنسان کے اور پانچ من مشک اور پانچ خلعت جن میںجواہر جڑے تھے اور پانچ ترکش طلاکار اور پانچ تلواریں بھیجیں اور یہ بھی درخواست کی کہ کوۂ ہمالیہ میں جو بت خانے ہیں ان کوبنانے کی پھر اجازت دی جائے۔

اس پہاڑ میں ایک جگہ ہے جس کو سمھل کہتے ہیں وہاں چین کے لوگ جاترا کو آتے ہیں۔ جب بادشاہ نے پہاڑ پر حملہ کیا تو اس شہر اور بت خانے کو برباد کردیا تھا۔ اب بادشاہ چین نے سلطان کو لکھا اور سلطان نے اس کو یہ جواب بھیجا کہ ملک اسلام میں سوا اس شخص کے جو جزیہ دے بت خانہ بنانے کی کسی اور شخص کو اجازت نہیں ہو سکتی اگر بادشاہ چین جزیہ دینا منظور کرے تو اجازت ہوسکتی ہے اور نذر بادشاہ چین کی نذر سے بھی بہت بڑھ کر بھیجی… (یہ بہت ہی قیمتی تحفہ جات تھے ان میں ہیرے جواہرات سے جڑے ہتھیار، ریشمی کپڑے، تلواریں وغیرہ شامل تھیں۔ )

صفر 743ہجری کی سترھویں تاریخ کو ہم روانہ ہوئے۔ اس ملک میں اکثر دوسری، ساتویں،بارہویں، سترہویں یا ستائیسویں کو سفر کرتے ہیں۔ اول دن ہم نے موضع تلپت میں قیام کیا دہلی سے سات آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کے بعد بیانہ پہنچے۔بیانہ (دہلی سے 100میل دور جنوب کی جانب) ایک بہت بڑا اور خوشنما شہر ہے۔ اس کے بازار بہت خوبصورت ہیں اور جامع مسجد بھی نادر بنی ہوئی ہے اس کی دیواریں اور چھت پتھر کی بنی ہوئی ہے اور مظفر بادشاہ کی دایہ کا بیٹا وہاں کا حاکم ہے۔ اس سے پہلے مجیرابن ابی رجا وہاں کا حاکم تھا۔یہ نہایت بے رحم اور ظالم و قاتل تھا۔

پھر ہم بیانہ سے چل کر شہر کول (علی گڑھ) میں پہنچے اس شہر میں باغ بہت ہیں اور اکثر باغ آم کے ہیں۔ ہم شہر کے باہر میدان میں ٹھہرے تھے وہاں میں نے شیخ صالح عابد شمس الدین کی’جو تاج العارفین کے لقب سے مشہور تھے‘ زیارت کی۔ وہ نابینا تھے اور عمر بھی بہت زیادہ تھی اس کے بعد ان کو بادشاہ نے قید کردیا تھا اور وہ قید خانہ ہی میں مرگئے تھے یہ ذکر میں کرچکا ہوں۔ جب ہم کول کے شہر میں پہنچے تو خبر آئی کہ ہندوئوں نے شہر جلالی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ یہ شہر کول سے 7میل کے فاصلے پر تھا ہم نے وہاں جانے کا ارادہ کیا اس شہر کے باشندے ہندوئوں سے لڑ رہے تھے اور ہلاک ہونے کے قریب تھے ہندوئوں کو ہمارے آنے کی خبر نہیں تھی ہم نے ان پر حملہ کیا وہ ایک ہزار سوار اور تین ہزار پیادے تھے ہم نے ان سب کو مار ڈالا اور ان کے گھروں اور ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا۔ ہمارے بھی33 سوار اور پچاس پیادے شہید ہوئے اور کافور ساقی یعنی شربدار جس کی تحویل میں شاہ چین کی نذر تھی لڑائی میں شہید ہوگیا۔

ہم نے بادشاہ کو اس کی شہادت کی خبر بھیجی اور جواب کے انتظار میں اسی شہر میں ٹھہر گئے ہندو پہاڑوں سے نکل کر جلالی کے شہر پر حملہ کرتے تھے اور ہمارا امیر ہر روز ہم کو لے کر ان کے مقابلہ کے لئےجاتا تھا۔ ایک دن میں ایک جماعت کے ساتھ سوار ہو کر باہر گیا اور ہم سب ایک باغ میں داخل ہوئے گرمی کا موسم تھا ہم نے شور کی آواز سنی اور ہم سوار ہو کر ایک گائوں کی طرف گئے وہاں ہندو آپڑے تھے ہم نے ان کا تعاقب کیا وہ پراگندہ ہوگئے اور میرے ہم راہی بھی ان کے تعاقب میں مختلف سمتوں میں چلے گئے۔ میرے ساتھ صرف پانچ آدمی رہ گئے ناگاہ ایک جھاڑی میں سے کچھ سوار اور پیادے نکلے اور انہوں نے ہم پر حملہ کیا۔ ہم تعداد میں تھوڑے تھے بھاگ نکلے۔ ان میں سے دس آدمیوں نے ہمارا تعاقب کیا اور ہم تین آدمی رہ گئے تھے۔ دشمن میرے پیچھے آتے تھے۔ میں ایک خندق کے کنارے پہنچا اور خندق میں اتر گیا پھر ان کی نظر سے غائب ہوگیا۔ خندق میں سے ایک پانی کا رستہ تھا جس پر دونوں طرف درخت جھکے ہوئے تھے۔

اس کے وسط میں راستہ جاتا تھا۔ میں اس رستے پڑ لیا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ کہاں پہنچوں گا۔ ناگاہ تقریباً چالیس آدمی نظر آئے ان کے پاس تیر تھے۔ انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ انہوں نے مجھے گرفتار کرلیا اور میرے کپڑے اتار لئے اور فقط ایک جبہ اور پاجامہ اور قمیص میرے بدن پر چھوڑ دیا۔ یہ لوگ ایک حوض کے کنارے اترے ہوئے تھے مجھے بھی وہاں لے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے مجھے ماش کی روٹی دی میںنے وہ روٹی کھائی اور پانی پیا ان کے ساتھ دو مسلمان بھی تھے۔ انہوں نے مجھ سے فارسی میں دریافت کیا کہ میں کون ہوں؟ میں نے ان کو اپنا حال بتایا اور یہ نہ کہا کہ میں بادشاہ کا ملازم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ تجھے ضرور قتل کرڈالیں گے لیکن ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ شخص ان کا سردار ہے میں نے ان دونوں مسلمانوں کی معرفت اس سے گفتگو کی اور نرمی اور خوشامد کی باتیں کیں۔ اس نے مجھے تین آدمیوں کے سپرد کیا ۔‘‘

اُن لوگوں نے ابن بطوطہ کے ساتھ بُرا سلوک کیا۔ لیکن ان کے نوجوان سردار نے اُنھیں بھاگنے کی اجازت دیدی اور وہ تکالیف اُٹھا کر ایک وسیع سڑک پر چل دیے۔ باقی ان کی زبانی:

’’آگے چل کر ایک اونچا گائوں آیا پھر میں دوسرے گائوں کی طرف چلا وہ بھی ویران تھا کئی دن اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن میں ایک درخت کے جھنڈ کی طرف گیا ان کے بیچ میں پانی کا ایک حوض تھا اس کے اندر ایک گھر سا تھا اور اس کے اوپر کھجور کے درخت کھڑے تھے میں نے ارادہ کیا کہ وہاں بیٹھ جائوں اور اگر خدا کسی شخص کو بھیج دے تو اس سے آبادی کا رستہ دریافت کروں۔ میرے جسم میں کچھ طاقت آگئی تو میں پھر چلا رستے پر مجھے بیلوں کے کھروں کے نشان معلوم ہوئے اور ایک بیل دکھائی دیا اس پر ایک کنبل اور درانتی رکھی ہوئی تھی چونکہ یہ رستہ کفار کے علاقہ کی جانب جاتا تھا میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ایک ویران گائوں میں پہنچا وہاں مجھے دو آدمی رنگ کے کالے اور ننگے دھڑنگے ملے میں ڈر گیا اور درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔

ساتویں دن میں ہندوئوں کے ایک گائوں میں پہنچا اس میں ایک پانی کا حوض تھا اور سبزی بھی نظر آتی تھی۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے کچھ کھانے کے لئے مانگا انہوں نے نہ دیا وہاں کنویں کے اردگرد مولی کے پتے پڑے ہوئے تھے وہ میں نے کھائے۔ میں گائوں میں آیا تو وہاں کافروں کا ایک گروہ تھا ان کا ایک کمپٹ بھی تھا اس نے مجھ سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کچھ جواب نہ دیا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ ان میں سے ایک شخص تلوار کھینچ کر میری طرف بڑھا اور اس نے مجھےمارنے کے لئے تلوار اٹھائی۔ میں نے اس کی طرف نہ دیکھا کیونکہ میں بالکل تھکا ہوا تھا اس نے میری تلاشی لی اور جب میرے پاس کچھ نہ ملا تو میں نے اس کو اپنی قمیص دی جس کی آستینیں میں بوڑھے کو دے آیا تھا۔ دوسرا دن ہوا تو مجھے پیاس نے تنگ کیا اور پانی نہ ملا۔ میں ایک ویران گائوں کی طرف گیا وہاں کوئی تالاب نہ تھا۔ اس ملک میں بارش کا پانی تالابوں میں جمع کرلیتے ہیں اور تالابوں سے پیتے رہتے ہیں میں ایک رستے پر پڑ لیا۔

آگے ایک کچا کنواں آیا اس پر مونج کی رسی پڑی ہوئی تھی لیکن ڈول نہ تھا۔ میں نے رسی میں اپنی دستار باندھی اس میں جو کچھ پانی لگ گیا وہ چوسنے لگا لیکن پیاس نہ بجھی پھر میں نے اپنا موزہ رسی سے باندھا رسی ٹوٹ گئی اور موزہ کنویں میں جا پڑا۔ پھر میں نے دوسرا موزہ باندھا اور پیٹ بھر کر پانی پیا پھر میں نے موزہ کاٹ کر اسکے اوپر کا حصہ کنویں کی رسی اور ایک دھجی کے ذریعہ سے پائوں پر باندھ لیا جب میں اسے پائوں پر باندھ رہا تھا مجھے ایک شخص نظر آیا۔ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو یہ شخص کالے رنگ کا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوٹا اور عصا تھا اور اسکے کندھے پر جھولی تھی۔ اس نے مجھ سے السلام علیکم کی۔

میں نے وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ جواب دیا اس نے مجھ سے فارسی میں دریافت کیا چہ کسی۔ میں نے کہا میں رستہ بھول گیا ہوں اس نے کہا میں بھی رستہ بھولا ہوا ہوں۔ پھر اس نے اپنا لوٹا رسی میں باندھا جو اس کے پاس تھی اور پانی کھینچا میں نے ارادہ کیا کہ پانی پیوں اس نے کہا صبر کر۔ اور اپنی جھولی میں سے بھنے ہوئے چنے اور چاول نکالے میں نے وہ کھائے اور پانی پیا۔ اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی۔ مجھ سے اس نے نام پوچھا میں نے کہا محمد میرا نام ہے۔ پھر میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا تو اس نے قلب فارح (خوش دل) میں نے کہا فال تو اچھی ہے اور میں چل دیا اس نے کہا کہ میرے ساتھ چل۔ میں نے کہا اچھا۔ تھوڑی دور میں اس کے ساتھ گیا کہ میرے اعضا نے جواب دے دیا اور میں کھڑا نہ رہ سکا اور بیٹھ گیا اس نے پوچھا کہ کیا حال ہے۔ میں نے کہا کہ تیرے ملنے سے پہلے میں چل سکتا تھا اب چلا نہیں جاتا۔

اس نے کہا سبحان اللہ آمیری گردن پر سوار ہو لے۔ میں نے کہا تو ضعیف آدمی ہے مجھے اٹھا نہیں سکے گا۔ اس نے کہا تجھے سوار ہونا پڑے گاخدا مجھے طاقت بخشے گا۔ میں اس کی گردن پر سوار ہو لیا اس نے مجھ سے کہا کہ تو حسبنااللہ و نعم الوکیل پڑھتا چلا جا میں نے اس کا ذکر شروع کیا اور مجھے نیند آگئی جب اس نے مجھے زمین پر لٹایا تو اس وقت میری آنکھ کھلی میں بیدار ہوا اور اس آدمی کا پتہ نہ لگا میں نے اپنے تئیں ایک آباد گائوں میں پایا۔ میں اس میں داخل ہوا تو اس میں ہندو رہتے تھے مگر وہ بادشاہ کی رعیت تھی اور ان کا حاکم مسلمان تھا اس کو لوگوں نے خبر کی تو وہ میرے پاس آیا اس سے میں نے دریافت کیا کہ اس گائوں کا کیا نام ہے۔ اس نے کہا تاج پورہ اور یہاں سے کول دو فرسخ ہے وہ حاکم مجھے اپنے گھر لے گیا اور مجھے گرم گرم کھانا کھلایا اور غسل دلایا اور کہا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک عمامہ ہے جو ایک شخص مصری کول (علی گڑھ) کے کیمپ سے آکر میرے پاس رکھ گیا تھا میں نے کہا کہ لائو میں ان کو کیمپ جانے تک پہن لوں۔

جب وہ لایاتو معلوم ہوا کہ میرے ہی کپڑے ہیں یہ کپڑے میں نے اس مصری کو دیئے تھے جب کول میں تھا میں نہایت متعجب ہوا اور سوچ رہا تھا کہ وہ شخص جو مجھے اپنی گردن پر سوار کرکے لایا‘ کون تھا؟ یاد آیا کہ مجھے ولی اللہ ابوعبداللہ مرشدی نے اس سے پہلے فرمایا تھا کہ تو ہندوستان جائے گا اور وہاں میرا بھائی تجھے ملے گا اور وہ تجھے ایک سختی سے رہائی دے گا اب مجھے یاد آیا کہ میں نے اس کا نام دریافت کیا تھا تو انہوں نے دلشاد نام بتلایا تھا اور قلب فارح کا بھی یہی ترجمہ ہے اب مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی شخص تھا جس کی خبر مجھے شیخ ابو عبداللہ مرشدی نے دی تھی اور وہ ضرور ولی اللہ تھا۔ میں نے افسوس کیا کہ مجھے اس کی صحبت زیادہ دیر تک نصیب نہیں ہوئی۔ اس طرح شیخ مرشدی ؒ ولی اللہ کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی اور واقعی وہ ولی اللہ ہی تھے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے