فاٹااصلاحات:پاٹا میں مسائل شروع

قومی اسمبلی میں 31ویں آئینی ترمیم بل کی منظوری کے بعد ملاکنڈ ڈویژن (سوات ، بونیر ، چترال ، دیر لوئر ، دیر اپر، شانگلہ اور ملاکنڈ) پاٹا (صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات ) کی حیثیت تبدیل ہوگئی یعنی ٹیکس فری زون کا خاتمہ ہوگیا۔

ایم این اے جنید اکبر

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے جنید اکبر کا کہنا ہے کہ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل,246 ,247 کے خاتمے کے ساتھ ہی فاٹا کی قانونی حیثیت ختم ہوگئی جس پر اس نے کمیٹی اجلاسوں میں بھی احتجاج کیا اور مطالبہ کیا ہماری حثیت کو ختم نہ کیا جائے۔

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم ٹیکس نہ دے اور باقی ملک ٹیکس دیتا رہے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے جتنی قانون سازی کی ہے وہ ہم پر لاگو نہیں مگر کہ اب ہر قانون ہمارے علاقوں میں بھی نافذ ہوگا۔ مثلاً معلومات تک رسائی کا قانون، خدمات تک رسائی وغیرہ کے قوانین ملاکنڈ میں نافذالعمل نہیں تھے ۔

ملاکنڈ کے حلقہ این اے 35 (جو کہ اب این اے 8 بن گیا ہے) سے جماعت اسلامی کے سابق ممبر قومی اسمبلی بختیار معانی نے آئی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق اگر کسی جگہ کی حیثیت ختم یا تبدیل کرنا ہو تو وہاں کہ معززین سے رائے لی جاتی ہے۔ یہاں پر پاٹا کی حیثیت کو ختم کرنے کے بارے میں کسی کو معلوم ہی نہیں۔ہم ملاکنڈ کے معززین کے ساتھ مشورہ کرکے ہی کچھ فیصلہ کریں گے۔

ملاکنڈ پریس کلب کے صدر رب نواز ساغر نے آئی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بل کی منظوری سے قبائلی علاقہ جات میں پولیس کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ضلع ملاکنڈ میں بھی پولیس تعیناتی کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے،حالانکہ یہاں پولیس تعیناتی کے خلاف منصوبہ بندی کے ذریعے مخالفت ہوتی چلی آئی ہے۔

رب نواز ساغر ، صدر سوات پریس کلب

رب نواز ساغر کا مزید کہنا تھا کہ اصلاحاتی بل سے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو صوبائی اور قومی اسمبلی کے قوانین کا فائدہ اگرچہ حاصل ہوگیا تاہم پاٹا کی حیثیت میں اسے آئینی طور پر حاصل شدہ ٹیکس فری زون اور دیگر مراعات کے خاتمے کے ساتھ ڈویژنل سطح پر نئے مسائیل پیدا ہوسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے