ترکی اورامریکا آمنے سامنے

حالیہ دنوں میں دو نیٹو اتحادیوں اور شام کی خانہ جنگی کے عارضی شراکت داروں کے درمیاں سخت کشیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو سال سے ترکی میں قید امریکی پادری اینڈریو برونسن کو رہا کروانے کےلیے ٹوئٹر اور خفیہ مذکرات کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ وائٹ ہاؤس سفارتی ذرائع سے پادری کو رہا کروانے کی کوششوں میں ناکامی پرسخت مایوس ہے۔ اس وجہ سے ترکی کو دباؤ میں لانے کےلیے سفارتی اور اقتصادی دباؤ میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔

امریکی مشیر قومی سلامتی نے ترک سفیر سے خفیہ ملاقات میں پیغام دیا کہ امریکا پادری کی رہائی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ امریکی پادری کو 2016 میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ترک حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی پادری نے باغی فوجیوں کےلیے سہولت کاری کی تھی۔ ترک عدالت نے بھی امریکی پادری کی رہائی کی ایک اور اپیل مسترد کردی۔

دوسری طرف اسرائیلی قید میں ترک خاتون کے ساتھ تبادلے کے طور پر امریکی پادری کو رہا کیا جا سکتا تھا لیکن اس امکان کو ترک حکام نے مسترد کردیا۔ برونسن کو ان الزامات میں 35 سال قید کا سامنا کر پڑسکتا ہے۔ امریکی پادری اینڈریو برونسن 23 سال سے ترکی میں مقیم ہیں۔ ترک حکومت نے امریکی پادری پر گولن اور دہشت گردوں سے تعلق کے الزامات عائد کئے ہیں۔ آج کل امریکی پادری کو خرابی صحت کی بنیاد پر گھر میں قید کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کو ہر وقت الیکٹرونک ڈیوائس پہنے رکھنے کا پابند بھی کیا گیا ہے۔

امریکا نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اسٹیل اور ایلمونیم کی صنعت پر ڈیوٹی عائد کردی۔ دوسری طرف ترکی بہ ترکی جواب میں امریکا کو شراب، سگریٹ اور کاروں کی صنعت پر اضافی برداشت کرنا پڑے گی۔ فی الحال امریکی اقدامات سے ڈالر کے مقابلے لیرا کی قدر میں چالیس فیصد کمی ہو چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پادری کو رہا نہ کرنے کی صورت میں مزید اقتصادی پابندیوں کا پیغام دیا۔

امریکا ترکی کےلیے پانچویں بڑی منڈی ہے۔ ترکی نے ایک سال میں امریکا کو 8 ارب ڈالر 70 کروڑ کی مصنوعات برآمد کیں۔ دوسری طرف امریکا کے اسٹرٹیجک پارٹنر قطر نے ترکی کی معاشی صورت کی نزاکت بھانپتے ہوئے فوری طور پر ترکی میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ یہ سارا معاملہ امریکی پاردی کی گرفتاری اور ترک میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت سے مربوط ہے اور یہ سارا مسئلہ ترکی کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی بیانیے سے نتھی ہے۔

طیب اردوان کے اقدامات سے ترک فوج امریکی اثر سے نکل رہی ہے۔ طیب اردوان فوج کو سول حکومت کے تابع کرنا چاہتے تھے اور ترک معاشرے میں حالیہ ہونے والی تبدیلیاں ترکی کو امریکا اور یورپ سے دور کر رہی تھیں۔ اینڈریو برونسن دو سال سے ترکی قید میں ہیں مگر حالیہ دنوں میں امریکا نے پادری کی رہائی کےلیے عملی اقدامات کرنے شروع کیے۔ ان تمام واقعات کی ایک تاریخ ہے جو یکے بعد دیگر تواتر کے ساتھ پیش آرہے تھے۔ اس سلسلے میں کچھ بنیادی سوالات پیدا ہورہے ہیں۔

امریکا ترکی کی موجود حکومت کا تختہ کیوں الٹنا چاہتا ہے؟ اور ترکی اپنی معیشت کا تحفظ کیسے کرے گا؟ اس سے پہلے ہم کچھ واقعات کا ذکر کریں گے جو آج کے نیٹو اتحادیوں کے درمیان سخت کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
شام کی جنگ شروع ہونے کے بعد ترکی نے امریکا کا ساتھ دیا لیکن ترک حکام کو اس بات کا پہلے سے پتا تھا کہ کردستان موومنٹ کو امریکی مدد حاصل ہے۔ امریکا نے ترکی کو دباؤ میں لانے کے مختلف حربے استعمال کئے جن میں سے کردوں کو ترکی کے خلاف متحرک کرنا بھی شامل تھا۔ اس سے پہلے ترک حکومت کو بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب ترک فوج نے سول حکومت کی اجازت کے بغیر شام کی حدود میں روس کا جنگی جہاز مار گرایا۔ طیب اردوان حکومت نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے روس سے معافی مانگ لی اور طیب اردوا ن نے ذاتی حیثیت سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو فون کیا اور تعلقات کو بہتر بنانے کی بات کی۔ روس نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ امریکا ترکی سے روس کے خراب تعلقات کا خواہاں ہے۔

یہ ایک بڑا واقعہ تھا جس پر ترک حکومت کو یقین ہو چکا تھا کہ ترک میں موجود عناصر امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کی طاقت کا محور فوج کے اندر موجود ہے۔ اس کے بعد سال 2016 میں ترک فوج نے طیب اردوان کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ رات کے وقت ہونے والی اس بغاوت کو طیب اردوان کی اپیل پر ترک عوام نے پولیس کی مدد سے ناکام بنا دیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔

طیب اردوان نے ناکام بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کیا۔ فتح اللہ گولن 1999 سے امریکا میں مقیم ہیں اور ایک اصلاحی تنظیم چلا رہے ہیں۔ طیب اردوان کی حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ بغاوت امریکی ایما پر کی گئی تھی جس کےلیے فتح اللہ گولن کا سہارا لیا گیا۔ اردوان حکومت نے گولن کی تنظیم کے خلاف بھر پور ایکشن لیا اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو ملازمت ہاتھ دھونے پڑے۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، باغی فوجیوں کو بھی سزائیں دی گئیں۔ بیرون ممالک میں واقعہ گولن کے تعلیمی اداروں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ ترک صدر کے دورہ پاکستان کے موقعے پر بھی نواز شریف حکومت نے گولن کے اسکولوں کو بند کر دیا اور اسکول کے اساتذہ کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا۔

شام کی خانہ جنگی کے معاملے پر ترک امریکا کا اتحادی رہا لیکن جس وقت روس نے بشارالاسد کی حکومت کو بچانے اور مشرق وسطی میں اپنے مفادات کے تحفظ کےلیے شام میں مداخلت کاسلسلہ شروع کیا، عین اُسی وقت امریکی حمایت یافتہ کردستان موومنٹ نے ترک علاقوں پر حملے شروع کر دیئے۔ ترکی نے کردوں کے خلاف کارروائی کےلیے شام کے علاقے میں اپنی فوج داخل کردی۔ ترک حکومت کا مؤقف تھا کہ اس کا نیٹو اتحادی ہی اس کے خلاف کارروئیوں میں مصروف ہے۔
اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ امریکا اور ترکی آمنے سامنے آچکے ہیں۔ لیرا کی قدر میں مسلسل کمی کو دیکھتے ہوئے ترک صدر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈالر کو لیرا سے تبدیل کروا لیں۔ اس اپیل کے بعد عوام بینکوں کے سامنے لائنیں بنانے لگے اور اب تو ڈالر جلائے جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔

طیب اردوان امریکا کی نظر میں مسلسل غیر مقبول بنتے جا رہے ہیں۔ وہ عالم اسلام کے مسائل پر اور اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں مداخلت پر متعدد بار سخت ترین الفاظ میں اظہار رائے کر چکے ہیں۔ طیب اردوا ن اسرائیلی وزیراعظم کو قاتل گروہ کا نام بھی دے چکے ہیں۔ اس وقت پوری اسلامی دنیا میں اسرائیل کے خلاف سب سے طاقتور آواز طیب اردوان ہی کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ مسلسل عالمی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ ترکی نے روس سے دنیا کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم ایس 400 حاصل کرنے کا معاہدہ بھی کرلیا جو نیٹو اور امریکا کےلیے تشویش کا باعث ہے۔ مزید یہ کہ ترکی امریکا سے ریڈار پر نظر نہ آنے والے (اسٹیلتھ) لڑاکا طیارے حاصل کرنے کا معاہد ہ بھی کرچکا ہے لیکن حالیہ کشیدگی کے باعث یہ معاہدہ اُسی طرح تعطل کا شکار ہو سکتا ہے جس طرح امریکا نے پاکستان کو ایف سولہ لڑاکا طیارے دینے میں پچیس لگا دیئے تھے۔

ترکی کو مسلسل حالات پر نظر رکھنا ہوگی کیونکہ امریکا اس سے پہلے عراق، لیبیا، یمن اور مصر میں اپوزیشن کے ذریعے حکومتیں تبدیل کروا چکا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے