ڈی پی او تبادلہ از خود نوٹس: چیف جسٹس کا رضوان گوندل کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ( ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران انہیں بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ خاور مانیکا فیملی کو ناکے پر روکے جانے پر ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے جب کہ عدالت کے طلب کیے جانے پر آئی جی پنجاب، آر پی او ساہیوال اور انکوائری افسر پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کیا قصہ ہے، 5 دن سے پوری قوم اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بات بار بار کہہ رہا ہوں پولیس کو آزاد اور بااختیار بنانا چاہتے ہیں، اگر وزیراعلیٰ یا اس کے پاس بیٹھے شخص کے کہنے پر تبادلہ ہوا تو یہ درست نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خاور مانیکا اور جمیل گجر کہاں ہے، ڈیرے پر بلا کر معافی مانگنے کا کیوں کہا گیا اور رات کو ایک بجے تبادلہ کیا گیا، کیا صبح نہیں ہونی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتنی عجلت میں رات کو ایک بجے تبادلے کا نوٹفکیشن جاری کیا گیا جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی مداخلت اور اثر ورسوخ برداشت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم دیکھتے ہیں کس طرح دباؤ کے تحت تبادلہ ہوتا ہے۔

انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کلیم امام نے عدالت کے روبرو کہا کہ مجھ پر تبادلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے، محکمانہ طور پر ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کیا گیا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ اسپیشل برانچ اور دیگر ذرائع سے پتہ چلا کہ رضوان گوندل درست معلومات نہیں دے رہے، وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او رضوان گوندل کو بلایا۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے خاور مانیکا کو روکنے والے ڈی پی او کا تبادلہ کردیا

آئی جی پنجاب نے بلند آواز میں کہا کہ تبادلہ سزا نہیں ہوتا، بطور کمانڈر ہم 24 گھنٹے کام کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں اونچی آواز میں بات نہ کریں جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں میں نے فلاں بات کی، آپ کون ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تو اس میں کیا غلط ہے اور کیا آپ نے وزیراعلیٰ سے ڈی پی او کو ملنے سے روکا جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا بیان

آئی جی پنجاب کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پی ایس او حیدر کی کال آئی کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ملوں، 23 اور 24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آر پی او کو بتایا اور پورے واقعہ کا آئی جی پنجاب کو واٹس ایپ پیغام بھیجا۔

رضوان گوندل نے کہا کہ واقعے والے دن 4 بجے فون آیا آپ رات دس بجے سے پہلے وزیراعلیٰ ہاوس پہنچ جائیں جس کے بعد رات 10 بجے وہاں پہنچا تو احسن جمیل کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بطور بھائی متعارف کرایا۔

سابق ڈی پی او پاکپتن نے مزید کہا کہ احسن جمیل نے ان سے پوچھا کہ مانیکا فیملی کا بتائیں، لگتا ہے ان کے خلاف سازش ہورہی ہے

وزیراعلیٰ پنجاب نے خاور مانیکا کو روکنے والے ڈی پی او کا تبادلہ کردیا

آئی جی پنجاب نے بلند آواز میں کہا کہ تبادلہ سزا نہیں ہوتا، بطور کمانڈر ہم 24 گھنٹے کام کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں اونچی آواز میں بات نہ کریں جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں میں نے فلاں بات کی، آپ کون ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تو اس میں کیا غلط ہے اور کیا آپ نے وزیراعلیٰ سے ڈی پی او کو ملنے سے روکا جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

آئی جی پنجاب کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پی ایس او حیدر کی کال آئی کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ملوں، 23 اور 24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آر پی او کو بتایا اور پورے واقعہ کا آئی جی پنجاب کو واٹس ایپ پیغام بھیجا۔

رضوان گوندل نے کہا کہ واقعے والے دن 4 بجے فون آیا آپ رات دس بجے سے پہلے وزیراعلیٰ ہاوس پہنچ جائیں جس کے بعد رات 10 بجے وہاں پہنچا تو احسن جمیل کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بطور بھائی متعارف کرایا۔

سابق ڈی پی او پاکپتن نے مزید کہا کہ احسن جمیل نے ان سے پوچھا کہ مانیکا فیملی کا بتائیں، لگتا ہے ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے