میانمار: آنگ سان سوچی کا روئٹرز کے دو صحافیوں کو قید کی سزا کا دفاع

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے بین الاقوامی مذمت کے باوجود خبر رساں ادارے روئٹرز سے وابستہ دو صحافیوں کو جیل بھیجنے کا دفاع کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صحافی وا لون اور کیاو او کو نے قانون کو توڑا ہے اور ان کی سزا کا ’آزادیِ اظہار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

امن کا نوبل انعام جیتنے والی میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی پر صحافیوں کی گرفتاری اور روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہنے کی وجہ سے سخت تنقید کی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق ایک کمیٹی نے گذشتہ ماہ جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں میانمار پر ’صحافیوں کے خلاف مہم شروع‘ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

آنگ سان سوچی نے جمعرات کو ویتنام میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی اقتصادیات کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنی خاموشی کو توڑ دیا۔

انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس مقدمے نے قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا ہے اور بہت سے نقاد نے اصل میں فیصلے کو پڑھا ہی نہیں ہے۔

میانمار کی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ’دونوں صحافیوں کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے اور یہ فیصلہ کیوں غلط تھا کی نشاندہی کرنے کا پورا حق ہے۔‘

دوسری جانب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے آنگ سان سوچی کی تقریر پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’سب غلط سمجھی ہیں۔‘

ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں کہ ’قانون کے اصل اصول‘ عدالت میں پیش کردہ ثبوت کے احترام کا مطلب ہے واضح طور پر بیان کردہ متناسب قوانین اور عدلیہ کی آزادی یا حکومت یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے اثر انداز ہونے پر مبنی ہے۔

میانمار کی ایک عدالت نے تین ستمبر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو ملکی رازوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔

ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے روہنگیا کے خلاف تشدد کی تفتیش کے دوران ملکی راز کی خلاف ورزی کی ہے۔

صحافی وا لون اور کیاو او کو سرکاری دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو انھیں کچھ دیر قبل پولیس نے دی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور یہ کہ پولیس نے انھیں جال میں پھنسایا ہے۔

32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاو سیو او شمالی رخائن کے گاؤں اندن میں فوج کے ہاتھوں دس افراد کے قتل کے متعلق شواہد اکٹھا کر رہے تھے۔ یہ دونوں صحافی گذشتہ سال دسمبر میں گرفتاری کے بعد سے قید میں ہیں۔

تفتیش کے دوران انھیں دو پولیس افسروں نے دستاویزات پیش کیں لیکن پھر ان دستاویزات کے ان کی تحویل میں ہونے کے جرم میں انھیں فورا گرفتار کر لیا گيا۔

اس کے بعد حکام نے اس گاؤں میں ہونے والے قتل کے معاملے میں اپنی تفتیش کروائی اور تسلیم کیا کہ وہاں قتل عام ہوا تھا اور وعدہ کیا کہ اس کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ فیصلہ رخائن صوبے میں پیدا ہونے والے بحران کے ایک سال بعد آيا جو کہ ایک روہنگیا جنگجو گروپ کی جانب سے کئی پولیس چوکیوں کو نشانہ بنانےکے بعد شروع ہوا تھا۔

اس کے بعد فوج نے روہنگیا اقلیت کے خلاف بہیمانہ کارروائی کی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں میانمار کے اعلی فوجی افسروں کی جانچ ہونی چاہیے اور ان پر نسل کشی کا مقدمہ چلنا چاہیے۔

رخائن میں میڈیا پر حکومت کا شدید کنٹرول ہے اس لیے وہاں سے قابل اعتماد خبر کا حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔

میانمار کی فوج کا کہنا ہے وہ رخائن میں روہنگیا عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری ہلاک کیے گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے