کراچی سے انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے کاروبار کا پردہ چاک ہوگیا، پاکستان سے ہونیوالی انسانی اسمگلنگ سے دہشتگردوں نے فائدہ اٹھانا شروع کردیا، بظاہر روزگار کیلئے جانیوالوں کے بھیس میں انتہاپسندوں کو بھی بیرونِ ملک بھیجے جانے کا انکشاف سامنے آگیا، حکومتی دعووں کے باوجود انسانی اسمگلنگ روکنے والا کوئی نہیں۔
ہوشربا اور سنسنی خیز انکشافات کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے لیے کراچی سے بلوچستان اور پھر پڑوسی ممالک کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، انسانی اسمگلنگ کے تین راستے ہیں، دو راستے پہلے زمینی اور پھر سمندری جبکہ ایک راستہ مکمل زمینی ہے۔
پہلا زمینی راستہ کراچی سے شروع ہو کر تفتان پر ختم ہوتا ہے، اس راستے کے لیے کراچی سے خضدار، مستونگ، نوشکی، چاغی اور دالبندین سے تفتان پہنچاجاتا ہے، تفتان پاکستانی ضلع ہے اور پھر یہاں سے ایرانی شہر زاہدان میں داخل ہواجاتاہے۔
دوسرا راستہ کراچی سے گوادر، جیونی ، تربت اور پھر مند بلوکا ہے،مند بلو کے بعد سمندری راستہ اختیار کیاجاتا ہے جو ایران، عمان، مسقط اور دیگر ممالک تک جاتا ہے۔ تیسرا راستہ کراچی سے گوادر، جیونی اور پھر وہاں سے سمندری راستہ ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ انسانی اسمگلر زلوگوں کو ان راستوں پر بھیجنے کےلیے بھی ڈھائی سے 5لاکھ روپے لیتے ہیں۔ داعش کے لیے جانے والے گرفتار کئے گئے زین شاہد اور بلال رند نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ ان دشوار گزار راستوں پر کئی کئی دن سفر کرایا جاتا ہے، یہ سفر زمینی اور سمندری دونوں طرح کا ہوتا ہے،پورے دن میں کھانے کے لیے صرف ایک کھجور اور پانی کی بوتل دی جاتی ہے۔
موسم کی سختی، حبس،گھٹن زدہ ماحول اور تنگ جگہ اور تقریبا ًنہ ہونے کے برابر خوراک میں جو بچ جائے اس کا سفر جاری رہتا ہے، جومرجائے اسے کہیں ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ زمینی راستے میں ایک ڈبل کیبن گاڑی میں 15سے20 لوگوں کو سفر کرایا جاتا ہے جبکہ سمند میں ایک ہی لانچ میں درجنوں افراد بھر دیئے جاتے ہیں۔
کئی کئی دن جنگلوں اور پہاڑوں میں پیدل بھی چلایا جاتا ہے۔اس دوران اگر دیگر ممالک کی فورسز کے ہاتھوں بچ گئے تو پھر ہی اپنی منزل پر ورنہ گولی زندگی چھین سکتی ہے ، پکڑے گئے تو ڈی پورٹ ہوکر پاکستان واپس ۔ انسانی اسمگلنگ روکنے کی اولین ذمہ داری ایف آئی اے، کوسٹ گارڈز اور سمیت دیگر اداروں کی ہے