دنیا بھر میں جتنی خواتین خودکشی کرتی ہیں ان میں سے تقریبا 40 فیصد ہندوستانی خواتین ہیں۔
یہ افسوسناک اعدادوشمار طبی جریدے لانسیٹ کی ایک تازہ تحقیق میں شائع ہوئے ہیں۔
الیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنی کثیر تعداد میں ہندوستانی خواتین اپنی جان لینے پر خود ہی آمدہ کیوں ہیں۔
اس رجحان کے پس پشت کون سے عوامل کار فرما ہیں؟ یہاں ہم ان کا جائزہ لے رہے ہیں۔
[pullquote]صحت عامہ کا بحران[/pullquote]
حیرت انگیز طور پر انڈیا میں خواتین کی خودکشی کی شرح میں گذشتہ دہائی کے دوران کمی واقع ہوئی ہے تاہم یہ اب بھی بہت زیادہ ہے۔
اس تحقیق کی سربراہ مصنفہ راکھی داندونا نے وضاحت کی کہ ‘انڈیا خواتین کے خودکشی کے واقعات میں کمی لانے میں کامیاب ہوا ہے لیکن اس کی رفتار تیز نہیں ہے۔’
انڈیا میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 15 خودکشی کرتی ہیں جو دنیا میں پائے جانے والے اعدادوشمار کا دگنا ہے۔ (دنیا کا اوسط ہر ایک لاکھ میں سات خواتین کی خودکشی کا ہے)
مردوں کے خودکشی کرنے کے معاملے میں اںڈیا کا حصہ 24 فیصد ہے۔
اس تحقیق میں سر پر منڈلانے والے ‘صحت عامہ کے بحران’ کے متعلق خبردار کیا گیا ہے۔
[pullquote]والدین کی مرضی کی شادیاں[/pullquote]
اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا میں خودکشی کرنے والی خواتین میں سے 71.2 فیصد کی عمریں 15 سے 39 سال ککے درمیان ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین شادی شدہ ہوتی ہیں۔
اس تحقیق میں یہ کہا گیا ہے کہ شادیاں خواتین کو خودکشی سے بچانے کے معاملے میں کم محافظ ثابت ہوئی ہیں اور ان کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1 ماں باپ کی مرضی سے کم عمری کی شادی
2 کم عمری میں ماں بن جانا
3 کم سماجی مرتبہ
4 گھریلو تشدد
5 معاشی انحصار
[pullquote]ڈیپریشن[/pullquote]
راکھی دندونا نے بی بی سی کو بتایا: ‘یہ سچ ہے کہ ہماری تہذیب میں اس عمر کے درمیان میں آنے والی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔’
انھوں نے مزید کہا: ‘ایسے میں ان کا ڈیپریشن میں چلا جانا بعید از قیاس نہیں ہے اور اس کے ساتھ انھیں مناسب نفسیاتی طبی سہولیات بھی حاصل نہیں ہوتی ہیں۔’
انڈیا کی خواتین میں خودکشی کی شرح زیادہ ہونے کے اصل اسباب پر روشنی ڈالنے کے لیے وافر تحقیق نہیں ہوئي ہے۔
لیکن خودکشی کو روکنے کا مرکز سنیہا قائم کرنے والی ڈاکٹر لکشی وجے کمار نے کم عمر خواتین میں خودکشی کے رجحان کی وضاحت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے نئی شادی شدہ خواتین بطور خاص جن کی شادی گھر والوں نے طے کی ہے انھیں بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض کو تو نوکری چھوڑنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔
[pullquote]سماجی حیثیت[/pullquote]
وہ مزید کہتی ہیں: ’لیکن ایک عمر کے بعد خاندان کے اندر ہی ان کی سماجی حیثیت بدلتی ہے اور وہ زیادہ محفوظ محسوس کرنے لگتی ہیں۔‘
اس تحقیق میں خودکشی کے معاملے انڈیا کے مختلف علاقوں میں بھی بڑی خلیج پائی گئی ہے۔ انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو اور کرناٹک کی خواتین میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ پائی گئی ہے۔
ان ریاستوں میں خواتین کی نسبتاً بہتر سماجی اور معاشی حیثیت ہے۔
لیکن اس بات کی قطعی طور پر وضاحت نہیں ہوتی کہ آخر انڈیا کی مختلف ریاستوں میں خودکشی کی شرح اس قدر مختلف کیوں ہے اور اُن ریاستوں میں خواتین کی خودکشی کی شرح زیادہ کیوں ہے جہاں انھیں زیادہ سماجی اور معاشی حیثیت حاصل ہے۔
[pullquote]اونچی امیدیں۔۔۔ بڑی مایوسیاں[/pullquote]
ڈاکٹر لکشمی وجے کمار کا کہنا ہے کہ ایک اصول تو یہ ہے کہ جن خواتین کی جتنی اونچی آرزوئيں ہوں گی انھیں زندگی میں اسی قدر مایوسی کا خطرہ بھی ہوگا۔’
وہ کہتی ہیں کہ ‘ہمیں اسی طرح کا رجحان امریکہ کی معاشی طور پر خوشحال ریاستوں میں بھی نظر آتا ہے۔’
دنیا بھر کی خواتین آبادی کا 18 فیصد انڈیا میں ہے اور یہاں یہ سمجھنا اہمیت کا حامل ہے کہ آخر یہاں کی خواتین میں دنیا کے دوسرے حصے کی خواتین کے مقابلے میں خودکشی کا رجحان زیادہ کیوں ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ شاید انڈیا کو چین سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
[pullquote]کیا کیا جا سکتا ہے؟[/pullquote]
سنہ 1990 میں چین میں خواتین کی خودکشی کی شرح سب سے زیادہ تھی لیکن سنہ 2016 میں اس نے اس میں 70 فیصد تک کی کمی کر لی ہے۔
اس کی وجہ دیہی چین میں خواتین کی خودکشی میں تیزی سے آنے والی کمی بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر لکشمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘چینی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے بہتر ملازمت کے لیے دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں 25 فیصد نقل مکانی کا ہدف حاصل کیا ہے۔’
[pullquote]ذہنی صحت کی خدمات میں بہتری[/pullquote]
ڈاکٹر لکشمی کا کہنا ہے کہ ‘انھوں نے نفسیاتی امراض کے لیے دی جانے والی سہولیات میں بھی بہتری پیدا کی ہے۔’
چین کے علاوہ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی خواتین کی خودکشی کی شرح میں خاطر خواہ کمی نظر آئی ہے۔
نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان چونکانے والا ہے۔
ڈاکٹر لکشمی کہتی ہیں: ‘خودکشی کی روک تھام کے لیے صحت عامہ کی سرکاری سہولیات پر کم ہی توجہ دی گئی ہے۔’
وہ کہتی ہیں کہ ‘پہلے 80 سال کے بوڑھے لوگوں میں ہی خودکشی کا رجحان دیکھا جاتا تھا لیکن اب کم عمر کے نوجوانوں میں یہ رجحان دیکھا جا رہا ہے۔’
کئی طرح کی آزمودہ حکمت عملیاں ہیں جن پر عالمی سطح پر عمل کرکے خودکشی کی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔
خودکشی کے ذرائع کو کم کرنا ایک حکمت عملی ہے جس سے خودکشی کم کی جاسکتی ہے۔
[pullquote]خودکشی کی تشریح[/pullquote]
مثال کے طور پر بعض تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 30 فیصد خوکشیاں کیڑے مار دوائيں کھا کر کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر لکشمی وجے کمار کہتی ہیں کیڑے مار دواؤں کی دستیابی کو محدود کرنے سے اس میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ‘نیچے لگے ہوئے پھل کی طرح ہیں اور ان پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ خودکشی اور الکحل میں خاطر خواہ تعلق ہے اور ‘بہت سی خودکشیاں شراب کے نشے میں کی جاتی ہیں اور یہ وہ میدان ہے جس پر ملکی سطح پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔’
میڈیا میں خودکشی کی پیشکش پر نظر رکھنے سے بھی اس میں کمی لائی جا سکتی ہے تاکہ لوگ خودکشی کے طریقے کو وہاں سے نقل نہ کریں۔
انڈیا کے نوجوانوں کی موت میں خودکشی کا بھی ایک بڑا حصہ ہے اور خواتین میں خودکشی کے رجحان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بہت سے ایسے مسائل ہیں جنھیں روکا جا سکتا ہے لیکن وہ عام ہیں۔
[pullquote]گھریلو تشدد کے خلاف شکایت[/pullquote]
انڈیا میں خاموشی اختیار کرنے کا ایک کلچر ہے جس سے گھریلو تشدد اور شادی کے ديگر مسائل کے خلاف شکایت درج کرانے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
سماج کے بعض حصے میں پسند کی شادی پر آج بھی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور سکول کی سطح پر اچھے نتائج کے لیے مسلسل دباؤ قائم رہتا ہے۔
ڈاکٹر لکشمی کہتی ہیں ‘انڈیا میں خودکشی سے روکنے اور پریشانی سے دوچار افراد کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔’
اسی ضمن میں راکھی دندونا کہتی ہیں کہ ‘ذہنی طبی سہولیات کی فراہمی ایسے میں اچھی شروعات ہو سکتی ہے۔’