نواز شریف کی آزمائش

پُرانے قارئین جانتے ہیں کہ میں نواز شریف کی سیاست کا زیادہ مداح نہیں رہا لیکن ان کی گزشتہ ایک دو سالوں کی سیاست نے مجھے ان کی طرف خاصا متوجہ کردیا ہے۔ ابھی جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف باقاعدہ طور پر نہیں چھوڑی تھی اور انکے اندرونی اختلافات کی کبھی کبھی بھنک پڑتی تھی، تو انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہہ ڈالا کہ نواز شریف آج بھی میرا لیڈر ہے۔ جاوید ہاشمی کی پاکستان کی جمہوری جدوجہد کیلئے بہت قربانیاں ہیں، اس وقت میں نے لکھا تھا کہ نواز شریف میں ایسی کونسی بات کہ انہیں لیڈر مانا جائے۔ لیکن پچھلے دو سالوں میں انہوں نے جس طرح پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو جرات مندی اور دلیری کے ساتھ لیڈ کیا ہے، اب آسانی سے کہاجاسکتا ہے کہ نواز شریف نہ صرف ایک لیڈر ہے بلکہ وہ پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا ایک ہیرو بھی ہے۔

نواز شریف کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر میں کیوں مجبور ہوا ہوں؟ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ ایسے قارئین جو شروع سے اس کالم کے قاری ہیں جانتے ہیں، کہ اس سے پہلے میں عمران خان کے بارے میں بھی رائے یکسر بدل چکا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک آزاد منش کالم نگار جسکی روزی روٹی اس شعبے سے وابستہ نہ ہو، جسکے اپنی رائے کی آزادی کے حوالے سے کوئی اسٹیک نہ ہوں، جو حقیقی جمہوریت کو پاکستان کے مسائل کا حل تصور کرتا ہواور جو آمریت کو اسکی ہر کھلی اور چھپی شکل میں ملکی سالمیت اور جمہوریت کیلئے خطرناک تصور کرتا ہو، اسکے لئے سیاسی قائدین کے بارے میں اپنی رائے بدلنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ خود کو فرشتہ ثابت کرنا مقصود ہے، ایک عام دنیادار آدمی کی حیثیت سے جو گناہ میرے حصے میں تھے، ان سے مبرا نہیں ہوں لیکن کہنے کا مقصد یہ کہ میری کوئی ایسی مجبوریاں نہیں ہیں کہ میں باطل کو حق کہنے پر مجبور ہوں۔

یہ بھی دعویٰ نہیں ہے کہ میں کوئی تیس مار خان ہوں کہ ہر حق بات کو ببانگِ دہل لکھ سکتا ہوں، خصوصاً آجکل کے ابتلا کے دور میں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عمران خان کا ڈٹ کر ساتھ دیا لیکن جب ایک حد تک جا کر آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ پاکستان کی جمہوری تحریک کو نقصان پہنچا رہا ہوں تو عمران خان کو انکے عروج کے زمانے میں خیر باد کہا اور حسب استطاعت ان پر تنقید کی اور کرتا ہوں۔ اب اسی سوال کی طرف واپس آتے ہیں کہ نواز شریف کے بارے میں میری رائے کیوں تبدیل ہوئی اور کیوں ان کے سیاسی کیرئیر کے بظاہر مشکل ترین اور درحقیقت روشن ترین اور انتہائی قابلِ فخر دور میں انکو جمہوری جدوجہد کا ہیرو قرار دے رہا ہوں؟

نواز شریف نے پچھلے دو سالوں میں کھل کر مزاحمت کی سیاست کو اپنا لیا ہے، وہ مزاحمت دراصل پاکستان کی جمہوری تحریک کا جزو لاینفک ہے۔ فاطمہ جناح کی تحریک سے شروع ہونے والی یہ مزاحمت جو مشرقی پاکستان سے ہوتی ہوئی مغربی پاکستان اور پھر مغربی پاکستان میں سرحد، بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان کے دور افتادہ اور محروم رکھے گئے صوبوں سے ہوتی ہوئی پنجاب تک پہنچی ہے۔ اس میں شاید ہی کوئی دو رائے ہوں کہ پاکستان میں عوام کو جمہوریت سے محروم رکھنے کی مذموم کوششیں ابتدا ہی سے شروع ہو گئی تھیں اور بدقسمتی سے ابھی تک ہر کوشش میں شکست جمہوریت اور جمہوری قیادت کے حصے میں ہی آئی ہے۔ نواز شریف نے اس جمہوری جدوجہد کے نقصانات اور خدشات کا ادراک ہوتے ہوئے بھی جمہوری جدوجہد کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنے بڑھاپے میں پنجاب کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

پچھلے دور حکومت میں انہوں نے زیادہ تر فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں رکھی اور زیادہ تر درست فیصلے کئے جن سے ملک درست سمت پر چل پڑا۔ مثلاً انہوں نے لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم کرنے اور انفرااسٹرکچر بہتر بنانے کا کارنامہ کر دکھایا۔ اگرچہ سی پیک کے تزویراتی اور معاشی نقصانات کو کما حقہ مدِ نظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس پر کھلے عام عوامی بحث کرنے دی گئی جسکے بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال ان حالات میں سی پیک جیسے بڑے منصوبے کو پاکستان لانا، اس پر اتنی تیزی سے کام کروانا اور سب سے بڑی بات کہ اسکی باگ ڈور کافی حد تک سول حکومت کے کنٹرول میں رکھنا انکا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی وجہ سےاندرونی وطاقتیں، خصوصاً مغربی طاقتیں کسی حد تک ان سے نالاں ضرور ہوئیں۔

پھر یمن کی پرائی جنگ سے پاکستان کو دور رکھنے کیلئے انہوں نے جو دلیرانہ اقدام کئے، اس سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو تو بہت فائدہ ہوا لیکن کچھ برادر ملک ان سے ناراض ہو گئے اور اسکا خمیازہ انہیں نہ صرف پانامہ کیس کی تفتیش کے دوران بھگتنا پڑا بلکہ اب اگر وہ ایک بہادر جمہوری لیڈر کی طرح جیل کی سلاخوں کا تمغہ اپنے اور اپنی عزیز ترین بیٹی اور سیاسی جانشین مریم نواز کے سر سجائے بیٹھے ہیں تو اس میں بھی اس ناراضی کا کافی عمل دخل ہے۔ جب جمہوریت اور جمہوری آزادیوں کی آواز اٹھانے والے پاکستانی شہریوں اور سوشل میڈیا بلاگرز کے خلاف غیر قانونی کریک ڈائون شروع ہوا تو ہم جیسے لوگ انکی حکومت کی خاموشی پر انکے ناقد بنے رہے لیکن اب خبریں آ رہی ہیں کہ کیسے عاصمہ جہانگیر اور مرحومہ بیگم کلثوم نواز کے اصرار پر انکی رہائی میں نواز شریف نے اہم کردار ادا کیا۔

سب سے بڑی بات کہ نواز شریف کا ووٹ بینک رجعت پسند طبقے سے تھا لیکن اسکے باوجود انہوں نے پرانی اور نئی مذہبی انتہا پسند تحریکوں کیخلاف اقدامات پر نہ صرف آمادگی ظاہر کی بلکہ عملی اقدامات بھی کئے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا کہ ان کے مخالفین نے ان اقدامات کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ اور سب سے دلیرانہ قدم انہوں نے تب اٹھایا جب بین الاقوامی برادری کی جانب سے پاکستان کے اوپر دہشت گردی کے الزامات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح انہوں نے عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے کئی ایک اقدامات کئے یا کرنے کی کوشش کی۔

میاں صاحب اپنے اس نیک جمہوری مشن میں کچھ کامیابیاں حاصل کر پائے لیکن ساتھ ہی ساتھ ردعمل بھی سامنے آیا اور وہ غدار، کرپٹ اور ملک دشمن قرار دیئے جانے لگے۔ میاں صاحب اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ دراصل جیل کیوں اور کیسے پہنچے اس بارے میں واقفانِ حال بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ان باتوں کے سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ فی الحال اسی پر اکتفا کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نے اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے اور ریاست پر حکومت کرنے کی خواہش سے جس سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا، اب وہ پاکستانی عوام اور خصوصاً جمہوریت پسند طبقات کے دلوں پر حکومت کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے سیاسی کیرئیر کے انجام کی طرف گامزن ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے