انڈیا میں رفال جیٹ پر سیاسی طوفان، مودی خاموش

انڈیا کی حزب اختلاف نے مطالبہ کیا ہے کہ فرانسیسی رفال جیٹ طیاروں کی خریداری میں مبینہ طور پر اربوں ڈالر کی بدعنوانی پر وزیراعظم نریندر مودی استعفیٰ دیں۔

حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ مودی نے فرانس کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں ایک کمپنی کو فائدہ پہنچایا۔

نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے یہ معاہدہ فضائیہ کی جنگی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا ہے اور مقامی کمپنی کو چننے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

رفال جیٹ طیاروں کے معاہدے نے انڈیا میں سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے اور مقامی ٹی وی چینلز گذشتہ کئی روز سے اسی معاملے پر پروگرام کر رہے ہیں۔

انڈیا 2017 میں دنیا میں اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار تھا۔ انڈیا نے حکومتی سطح پر فرانس سے 2016 میں ڈسالٹ ایوی ایشن کے تیار کردہ 36 رفال جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔

اس معاہدے سے انڈیا سوویت زمانے کے اپنے جیٹ طیارے تبدیل کرنا چاہ رہا ہے۔ رفال جیٹ طیارہ طویل فاصلے کے مشن بشمول انتہائی درست سمندری اور بری اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رفال جیٹ طیارے کی پہلی کھیپ 2019 میں انڈیا کے حوالے کیے جانے کی توقع ہے اور انڈیا کو تمام 36 جیٹ طیارے چھ سال میں مل جائیں گے۔

مودی نے اس معاہدے کا اعلان پیرس میں فرنسیسی صدر فرانسوا اولاندے کے ہمراہ کیا تھا۔ انڈین حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے فضائیہ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے بہترین معاہدہ کیا ہے۔

وہ معاہدہ جسے دونوں رہنماؤں نے دو برس قبل اہم معاہدہ قرار دیا تھا، اب اس کے بارے میں ان دونوں رہنماؤں کے موقف مختلف ہو گئے ہیں۔

اولاندے نے سیاسی تنازع اس وقت کھڑا کر دیا جب فرانسیسی نیوز ویب سائٹ میڈیا پارٹ کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ انڈیا نے ڈسالٹ ایوی ایشن پر دباؤ ڈالا کہ وہ انڈیا کی ’آف سیٹ‘ پالیسی کو پورا کرنے کے لیے انڈین کمپنی ریلائنس ڈیفنس کے ساتھ شراکت داری کرے۔

[pullquote]رفال معاہدہ: شروع سے آخر تک[/pullquote]

2001: فضائیہ کو مضبوط کرنے کے لیے انڈیا نے 126 جیٹ طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا

2007: ٹینڈر جاری کیے گئے

2008: بوئنگ، روس کی یونائیٹڈ ایئر کرافٹ کارپوریشن، سویڈن کی ساب اور فرانس کی ڈسالٹ ایوی ایشن نے دلچسپی ظاہر کی

2012: ڈسالٹ کی بولی سب سے کم تھی اور اس کو شارٹ لسٹ کیا گیا

2014: جیٹ طیارے خریدنے کے فیصلے کو موخر کر دیا گیا جب نریندر مودی وزیر اعظم منتخب ہوئے

2015: فرانس کے دورے پر مودی نے 36 رفال جیٹ خریدنے کا اعلان کیا

انڈیا کی دفاعی خریداری میں ’آف سیٹ‘ پالیسی کے مطابق غیرملکی کمپنیوں کو معاہدے کا 30 فیصد کی سرمایہ کاری انڈیا میں کرنی ہو گی۔ ’آف سیٹ‘ پالیسی 2008 میں نافذ کی گئی تھی۔

2016 میں ہونے والی رفائیل معاہدے میں ڈسالٹ ایوی ایشن نے انڈیا میں 50 فیصد یعنی آٹھ اعشاریہ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہو گئی۔ اس سرمایہ کاری میں ڈسالٹ نے حامی بھری کہ وہ چھوٹے پرزے ارب پتی انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس سے بنوائے گی۔

اولاندے نے میڈیا پارٹ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ فرانسیسی حکومت کا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

’انڈین حکومت نے ریلائنس ڈیفنس کا نام تجویز کیا اور ڈسالٹ نے امبانی کے ساتھ مذاکرات کیے۔ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور ہم نے وہ کمپنی لی جو ہم کو دی گئی۔‘

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے نریندر مودی پر انیل امبانی کی کمپنی کی مدد کرنے پر اقربا پروری کا الزام لگایا ہے۔

راہل گاندھی نے کہا ’وزیر اعظم نے ذاتی طور پر مذاکرات کیے اور رفال کے معاہدے میں تبدیلی کرائی ۔۔۔ وزیر اعظم نے انڈیا کو دھوکہ دیا ہے۔ انھوں نے ہمارے فوجیوں کے خون کی بےحرمتی کی ہے۔‘

انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کرائے۔ تاہم وزرا نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ڈسالٹ نے خود کمپنی کا انتخاب کیا ہے۔

ڈسالٹ نے بھی انڈین حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے ’ریلائنس ڈیفنس کا انتخاب ڈسالٹ نے کیا ہے۔ اس پارٹنرشپ کے باعث 2017 میں ڈسالٹ ریلائنس ایرو سپیس لمیٹڈ کا قیام ہوا ہے۔‘

امبانی نے شروع ہی سے اس ڈیل میں کسی قسم کے غلط کام کی تردید کی ہے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ پارٹنرشپ ان کی کمپنی اور ڈسالٹ کے درمیان براہ راست طے پائی تھی اور حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

تاہم فرانسیسی حکومت نے اس حوالے سے محتاط انداز اپنایا ہے۔ فرانسیسی حکومت کی نے براہ راست اولاندے کے بیان کی تردید نہیں کی لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈسالٹ کے فیصلے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔

کانگریس پارٹی نے مودی پر ریاستی دفاعی پیداوار کی کمپنیوں کو تباہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔

لیکن یہ احساس نیا نہیں ہے۔ سنہ 2000 میں بی جے پی کی حکومت نے نئے لڑاکا طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس کی حکومت نے بھی عمل کو جاری رکھا اور 2008 میں 126 طیارے خریدنے کا ٹینڈر دیا۔ ڈسالٹ کو 2012 میں فائنل کیا گیا اور ریاستی کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کو 108 جیٹ طیارے بنانے کے لیے ڈسالٹ کا پارٹنر چنا گیا۔

لیکن یہ معاہدہ اس وقت پورا نہ ہو سکا جب ڈاسو اور ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ قواعد و ضوابط پر متفق نہیں ہو سکے۔

جب مودی 2014 میں حکومت میں آیے تو انھوں نے کہا کہ لڑاکا طیارے خریدنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ پہلے والے معاہدے کو ہی وہ آگے لے کر چلتے انھوں نے 36 رفائیل خریدنے کا اعلان کیا اور اس میں ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ شامل نہیں تھی۔

انڈین حکومت کہا کہنا ہے کہ وہ 36 رفال طیارے اس لیے خرید رہی ہے تاکہ فضائیہ کی فوری ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ انڈیا باقی لڑاکا طیارے کہاں اور کس سے خریدے گا۔

اپریل میں انڈین فضائیہ نے اعلان کیا کہ وہ مزید 110 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کے لیے ٹینڈر کرے گی۔

کانگریس جماعت نے مودی پر یہ بھی الزام لگایا کہ 2012 کے معاہدے کے مقابلے میں حکومت فی طیارہ زیادہ رقم دے رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے تفصیلات مہیا نہیں ہیں۔

انڈین وزیر دفاع نے کہا تھا کہ وہ طیاروں کی خریداری میں آنے والی لاگت کو منظر عام پر لائیں گی تاکہ کانگریس کو غلط ثابت کیا جا سکے۔ تاہم بعد میں انھوں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ معلومات خفیہ ہیں۔

ان معلومات کی عدم دستیابی نے کانگریس کو انتخابات سے قبل مزید بڑھاوا دیا ہے۔

اگرچہ سینیئر وزرا مودی کے دفاع میں سامنے آئے ہیں لیکن مودی کی خاموشی نے حزب اختلاف کے کیس کو تقویت دی ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ حکومت کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ’شبیہ کی جنگ‘ لڑنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب تک نریندر مودی اس بارے میں بات نہیں کرتے تب تک یہ جنگ لڑنی مشکل ہے کیونکہ لوگ اس شخص سے سننا چاہیں گے جس کو انھوں نے منتخب کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے