کیامزاحمتی سیاست دم توڑ چکی؟

پاکستان کی نئی حکومت کو قائم ہوئے ابھی چند ہفتے گزرے ہیں ۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے اور فوراً بعد جو بلند بانگ دعوے کئے تھے ، ابتدائی دنوں میں کی حکومتی کارکردگی نے ان کی قلعی کھول دی ہے ۔ اشیائے صرف مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں جس سے عام آدمی کی بے تابی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریروں میں کہا تھا کہ ملک کو درپیش مالی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی ایسی راہ نکالیں گے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے در پر نہ جانا پڑے۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا تھا کہ اگر انہیں آئی ایم ایف جانا پڑا تو وہ خود کشی کو اس سے بہتر سمجھیں گے ۔

عمران خان کی حکومت نے شروع کے دنوں میں جو معاشی فیصلے کیے ، وہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکام ثابت ہوئے۔ ملک کو بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکالنے کے لیے انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل بھی کی تھی کہ وہ ڈالرز کی شکل میں چندہ دیں لیکن بظاہر یہ بیل بھی منڈے نہ چڑھ سکی ، انہوں نے سعودی عرب کا خصوصی دورہ بھی کیا تھا لیکن وہاں بھی کوئی فوری حل نہ نکل سکا ، بالآخر رواں ہفتے ہی ان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت کرنے والے ہیں ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں 9.50روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں آٹھ فی صد کمی آگئی ۔ سونے کا بھاؤ بھی راتوں رات 62 ہزار روپے فی تولہ پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد سے حکومتی ترجمان ٹی وی اسکرینوں پر وضاحتیں دے رہے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں۔

نئی حکومت کی پالیسیاں اس قدر مبہم اور غیر منطقی ہیں کہ ٹی وی پر بولنے والے حکومت کے صحافی نما رضا کار ترجمانوں کے لیے اس کے حق میں دلائل تراشنا مشکل ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اوران کی ٹیم کے لوگ ’’احتساب‘‘ کی گردان کر رہے ہیں اور ’’کوئی این آر او نہیں ہوگا‘‘ کاناقوس برابر بجا رہے ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف مالی بدعنوانی کے مقدمے میں جیل کاٹنے کے بعد ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں لیکن ان کے خلاف قائم کیے گئے مقدمات کی سماعت جاری ہے ۔ بعید نہیں کہ وہ دوبارہ بھی گرفتار ہو جائیں۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی جو پاکستان کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب کے طویل مدت تک وزیراعلیٰ رہے ہیں ، احتساب بیورو کی جانب سے ایک مقدمے ’’آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل‘‘ میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اسی کیس میں جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ عام خیال یہ تھا کہ شہباز شریف کی شہرت چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے سیاست دان کی ہے ، اس لیے انہیں ’’احتساب‘‘ کی تلوار کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا لیکن ان کے گرفتار ہونے سے یہ تأثر کافی کمزور ہوا ہے ۔

بدھ کے روز وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ’’ماڈل ٹاؤن کیس‘‘ کی از سر نو شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کا عندیہ بھی دیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ شہباز شریف کو بہت جلد ریلیف نہیں مل سکے گا۔ماضی میں اس طرح کی خبریں بھی زیرِگردش رہیں کہ سیاست میں دلچسپی رکھنے والی طاقتور غیر سیاسی قوتیں چاہتی ہیں کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی (نواز شریف) کے جارحانہ طرز سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کردیں لیکن شہباز اپنی اسٹیبلشمنٹ دوست شناخت کے باوجود یہ ہامی نہ بھر سکے ۔ کچھ لوگ اس ’’انکار‘‘ کو شہباز کی گرفتاری کی ایک وجہ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔بہرحال یہ ایک تأثر ہی ہے۔

رہا سوال یہ کہ نواز شریف کی عدالت سے نااہلی ، پارٹی صدارت سے محرومی اور شہباز شریف کی گرفتاری سے مسلم لیگ نواز کی جمیعت کا شیرازہ بکھر جائے گا تو اس کا کوئی ٹکا بندھا جواب دینا قبل از وقت ہو گا لیکن موجودہ حالات میں لگتا یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی سیاسی بقاء مزاحمت کی صورت میں ممکن ہو پائے گی۔ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔ضمانت پر رہائی کے بعد کئی دنوں تک نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز مکمل طور پر خاموش رہے۔ ان کے جوشیلے حامی منتظر تھے کہ اب قیادت کسی اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی لیکن قیادت کے کیمپ میں مکمل سناٹا دیکھ کر وہ کسی قدر مایوس دکھائی دیے ۔

نواز شریف احتساب عدالت میں البتہ باقاعدگی سے پیش ہو رہے ہیں ۔ منگل کے دن پیشی کے بعد انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے جو بات چیت کی ، اس میں اہم جملہ وہ تھا جس میں نواز شریف طاقتور لوگوں کو یہ صلاح دیتے پائے گئے کہ’’ انتقام کی بجائے عفو درگزر سے کام لینا چاہیے ‘‘۔ اس جملے کے مخاطب کون ہیں؟ناراض طاقتور حلقے یا پھر موجودہ حکومت ؟ گمان یہ ہے کہ نواز شریف کے پیش نظر اول الذکر گروہ تھا۔عدالت سے نااہلی کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد نواز شریف نے’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ اپنے بارے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کار ہونے کا جو تأثر قائم کیا تھا ، اگر ’’عفو درگزر‘‘ والا یہ جملہ اس تأثرکے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ وہ کسی سے معاف کر دینے کی استدعا کر رہے ہیں ۔ اگر یہی بات درست ہے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ ان کی سیاست اور سیاسی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے یا لگنے والی ہے ۔ ہاں اگر وہ اپنی کسی اگلی پریس ٹاک میں اس جملے کی از خود وضاحت کردیں تو معاملہ صاف ہوجائے گا ۔

مریم نواز جو کہ سوشل میڈیا پر کافی جارحانہ پیرایۂ اظہار کے ساتھ سرگرم رہتی تھیں ، ان کی خاموشی بھی ابہام کو تقویت دے رہی ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد خیال تھا کہ ملک بھر میں بالعموم جبکہ پنجاب میں بالخصوص مسلم لیگ نواز کے کارکن احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ صرف پنجاب اسمبلی کے باہر منگل کے روز شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ ہو سکا ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں شہباز شریف کی سیاسی ساکھ کا کیا حال ہے۔

پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ شروع سے لے کر اب تک یہاں ’’احتساب‘‘ کا نعرہ لگا کر تحریکیں مسلسل چلائی جاتی رہی ہیں ۔چار فوجی آمروں نے عوامی حکومتوں پر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا اور یہی نعرہ لگایا لیکن ہر بار وہ اپنے کندھوں پر بدنامی کے طومار لیے اقتدار کی راہداریوں سے رخصت ہوئے اور ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیلتے رہے۔اب کی بار وزیراعظم بننے کی دیرینہ خواہش رکھنے والے کرکٹ ہیروعمران خان کی امید بر آئی اور وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ۔ انہوں نے بھی وہی پرانا ’’احتساب‘‘ کا نعرہ لگایا ہے اور اپنے انداز میں اس نعرے کی تجسیم کی کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن تضادات پر مبنی مبہم فیصلوں کے باعث ان کی حکومت کی مقبولیت دن بدن کم ہو رہی ہے۔ان کے اردگرد موجود ٹیم میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی صورت میں سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور ان کے دامن صاف نہیں ہیں ۔ ایسے میں لوگوں کو عمران خان کا ’’احتساب‘‘ کا نعرہ اب کھوکھلا سا لگنے لگا ہے۔

حالیہ چند ہفتوں میں نئی حکومت کی پالیسیوں، اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان اور اظہار رائے کی آزادی کے جڑے مسائل نے مل کر جو منظر نامہ تشکیل دیا ہے ، اسے دیکھ کر مستقبل قریب میں کسی بہتری کی امید قائم کرنا آسان نہیں رہا۔ مسلم لیگ نواز، جو مسلسل کہہ رہی ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، اس کی دستیاب قیادت اپناکوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں دے سکی ہے ۔اس وجہ سے ان جماعت کے کارکنوں میں داخلی سطح پر اضطراب اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی وقفوں وقفوں سے مسلم لیگ نواز کی قیادت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار تو کر دیتی ہے لیکن کھل کر کسی تحریک کا اشارہ نہیں دے رہی ۔پیپلز پارٹی کی قیادت کے سروں پر بھی احتساب کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے ،ان کے محتاط رویے کا نمایاں سبب یہی خوف ہے ۔خوف کی اس فضاء کو جو بھی حزب مخالف کی جماعت توڑنے میں کامیاب ہوگی ، وہی مستقبل کی سیاست میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے