کیا غلام بھی آزادی کا جشن منایا کرتے ہیں؟

پاکستان 14 اگست 1947 کو رات 12 بجے آزاد ہوا جس کے پیچھے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کی انتھک جدوجہد اور عظیم قربانیوں کی داستان رقم ہے لیکن بدقسمتی سے برصغیر کے سادہ لوح عوام نے قائداعظم کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر انگریزوں سے جو آزادی مانگی تھی وہ قیام پاکستان کے 70 سال گزر جانے کے باوجود نہیں مل سکی ہے.

انگریز بظاہر اس خطہ سے کوچ کر گئے ہیں لیکن اپنی حاکمانہ جابرانہ ظالمانہ ذہنیت کی حامل سوچ پر مشتمل ایک گروہ ہم پر مسلط کرکے گئے ہیں اور بابائے قوم کی زندگی کے آخری دن ایک خراب ایمبولینس سے لیکر نوازشریف کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ تک ایک گھناؤنی اور عبرتناک داستان سے تقریباً ہر ذی شعور آگاہ ہے.

لیاقت علی خان کا قتل ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نوازشریف کی جلاوطنی محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل اور نوازشریف کو قید و بند کی سزا اس داستان کے اہم ابواب ہیں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ سے شروع ہونے والے غداری کے سرٹیفیکیٹ دو مرتبہ کے منتخب وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ منتخب شدہ وزیراعظم نوازشریف کو غداری کا سرٹیفکیٹ دینے پر ختم نہیں ہوئے بلکہ غداری سرٹیفکیٹ دینے کا سلسہ ہنوز جاری ہے.

ایک خاص حکمت عملی کے تحت سیاسی قائدین کو کرپشن کے الزامات لگاکر عوام میں بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے والے اپنے آپکو ماورائے آئین و قانون سمجھتے ہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی جبکہ چار مرتبہ آئین شکنی کرکے آمروں نے کم و بیش تین دہائیوں سے زیادہ حکومت کی ہے اور صاحب علم خواتین و حضرات بخوبی آگاہ ہیں آمریت کے ان ادوار میں ملک و قوم نے سانحہ مشرقی پاکستان سمیت بے شمار نقصانات برداشت کرکے بڑی قیمت ادا کی ہے.

ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان نے امریکی تسلط سے آزادی حاصل کرکے پاک چائینہ اکنامک کوریڈور کی بنیاد رکھ کر ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور حقیقی آزادی کے سفر کا آغاز کرکے مستحکم اور خوشحال پاکستان کی طرف بڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ انگریزوں کی باقیات اور یہود و نصاریٰ کے کارندوں نے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کو اقتدار سے الگ کردیا اور بغیر کسی ثبوت مفروضوں کی بنیاد پر سزا دے کر ناحق قید کرکے نہ صرف ظلم و جبر کی داستاں کو دہرایا بلکہ پاکستان اور عوام کی خوشحالی کے راستے پر بند باندھ دیا ہے جو کہ ملک و قوم کے ساتھ سراسر ناانصافی اور زیادتی کے مترادف ہے بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقیات مقتدر قوتوں کی حاکمانہ جابرانہ ظالمانہ ذہنیت کی عکاسی ہے.

ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقیات کو پہلے اشاروں کنایوں میں مخاطب کیا جاتا تھا کیونکہ ان لوگوں کی طاقت کے سامنے سب اپنے آپکو بے بس محسوس کرتے تھے لیکن جب نوازشریف نے عوامی شخصی آزادی کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا اور "ووٹ کو عزت” کا نعرہ بلند کیا تو کمال جرات کا مظاہر9ہ کرتے ہوئے اس طاقتور خلائی مخلوق کو عوام کے سامنے بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے پاکستان کی تقریباً تمام عوام بخوبی آگاہ ہے کہ ان کے ووٹ کی پرچی کون چوری کرتا ہے اور اب عوام بکسہ چور کو نہ صرف جانتی ہے بلکہ اب تو ہر کوئی برملا انکا نام لیکر اظہار بھی کرتا ہے عوام کو سب پتہ ہے کہ کون الیکشن میں جھرلو پھیر کر دھاندلی کے ذریعے اپنی کٹھ پتلی کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے کیلئے پولیٹیکل انجینئرنگ کررہا ہے اور کون پری پول رگگنگ اور آفٹر پول رگگنگ کا مرتکب ہوا ہے.

میرا سوال آپ سے ہے جس ملک میں ، میں اپنی پرچی سے اپنا حکمران نہیں چن سکتا کیا اس ملک میں ، میں آزاد ہوں….؟

کیا غلام بھی آزادی کا جشن منایا کرتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے