مسلکی اختلافات اور امت کا تصور

کچھ برس پہلے کی ہی بات ہے جب بھی اذان کی آواز گونجتی تو اگلا مرحلہ مسجد کا انتخاب ہوا کرتا تھا۔ فلاں مسجد نہیں یار اسکا امام بریلوی ہے وہاں پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی بہتر ہے۔ اہل حدیث؟ نہیں نہیں امی کی طرح ہاتھ باندھتے ہیں اور پاوں کی چھوٹی انگلی سے چھیڑ خوانی کرتے ہیں، مجبوری نہ ہو تو اکیلے ہی پڑھ لینا بہتر ہے۔ امام صاحبان بھی دو چار اختلافی مسائل سیکھ کر خود کو ابن تیمیہ سمجھنے لگ جاتے اور ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں کوئی توقف نہ کرتے۔

گھر سے باہر جانا ہوتا تو جماعت کا تصور ہی ذہن سے نکال دیتے جیسے کوئی مسلمان ہندووں کی بستی میں چلا گیا ہو، اور کبھی کسی دوسری مسلک کی مسجد میں جانا بھی ہوتا تو جماعت کے ساتھ شامل ہوئے بغیر اکیلے ہی نیت باندھ لی۔
پھر چند سال پہلے دانہ پانی نیویارک منتقل ہوا تو بوریا بستر باندھ کر یہاں پہنچ گئے۔ نیویارک عجیب شہر ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ اس شہر کا نہ کوئی مذہب ہے نہ ہی کوئی پابندیاں۔ ہر رنگ ونسل، ہر مذہب و ملت کے لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ شائد ہی کوئی ایسا ملک یو جس کے لوگ یہاں نہ ہوں۔ پگڑی سجائے تبلیغی بھائی گشت کرتے نظر آئیں گے تو یہودی ربی سر پر کپہ پہنے نظر آئیں گے۔ پگھ باندھے سکھ ہوں یا نارنجی لباس پہنے بدھا کو ماننے والے۔ عیسائی چرچ آباد ہیں تو ہندووں کے مندر بھی۔ غرض ہر مذہب کے ماننے والے آزادی سے زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔

یہاں آ کر جہاں اذان کی آواز سماعت سے ٹکرانا بند ہوئی مسجد کے اندر ہی اذان کی اجازت ہے لاوڈ سپیکر کا استعمال نہیں ہوتا، وہیں مساجد کا چناو بھی اختیاری نہیں رہا۔ تھوڑے فاصلے پر مساجد موجود ضرور ہیں لیکن یہاں کی مصروف زندگی میں جو قریبی مسجد تک بھی پہنچ جائے وہی جنید بغدادی ہے۔

تو جناب یہاں آ کر جب نماز کا وقت ہوا اور قریبی مسجد کا رخ کیا تو مسجد میں داخل ہوتے ہی عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ ہر رنگ و نسل کے لوگوں سے مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔ جہاں افریقہ کے سیاہ رنگت کے نوجوان بیٹھے وہیں شیشان کے خوبرو بھائی بیٹھے ہوئے۔ کوئی پاکستانی تو کوئی بنگالی، پاس بیٹھا فلسطینی ذکر میں مصروف ہے تو ترکی نوافل ادا کر رہا ہے. غرض کہ نیل کے صحرا سے کاشغر تک تمام وہ لوگ جو کہ مختلف جھنڈوں تلے بٹے ہوئے ہیں ایک ہی صف میں نظر آئے۔ یہ میری روائتی مسلک پرستی کیلئے ایک زبردست جھٹکا تھا۔ میں کہ جیسے کنویں کے مینڈک کی طرح سوچتا رہا تھا۔ مجھے شائد اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ دنیا کتنی وسیع ہے۔ جہاں تمام رنگ و نسل کے مسلمانوں کو ایک صف میں دیکھ کر میرا سینہ چوڑا ہو گیا تھا وہیں مسلک پرستی کی میری سوچ پر ایک زبردست چوٹ لگی تھی۔

مجھے ایک ہی صف میں لوگ رفع یدین کرتے نظر آئے اور اسی صف میں سبز پگڑی باندھے لوگ بھی نظر آئے، اسی صف میں سفید پگڑیاں باندھے تبلیغی بھائی بھی نظر آئے۔ سب ایک امام کی اقتداء میں کوئی چوں چرا کئے بغیر نماز پڑھ رہے ہیں، ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے ہیں۔ نا تو کسی کا ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا اہم ہے نہ ہی کسی کا رفع یدین کرنا۔ نا ہی کسی کو سبز پگڑی سے چڑ ہے نہ ہی سفید پگڑی سے۔ کیا ہی خوبصورت منظر تھا جب کہ مسجد میں مجھے صرف مسلمان نظر آرہے تھے۔

یہ خوشگوار حیرت بڑھتی گئی جب شہر کی مختلف مساجد میں نماز پڑھنے کی توفیق ہوئی، کہیں عرب کی اقتداء میں انہیں کی طرح تکبیرات کہتے ہوئے، کبھی افریقی امام کی اقتداء میں، کہیں البانوی تو کہیں بھارتی۔ کتنا خوبصورت ہے ایک امت کا تصور، لیکن اسے سمجھنے کیلئے ہمیں کنویں سے باہر نکلنا پڑے گا۔ میں اب جب بھی بالخصوص جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں ایک ہی صف میں تمام مسلم ممالک سے تمام مسالک کے ہر رنگ و نسل کے لوگ دیکھتا ہوں تو نہ تو کوئی بریلوی، نہ حنفی اور نہ ہی کوئی شافعی نظر آتا ہے ایک امت نظر آتی ہے اور میرا سینا فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے