بچوں کو مچھلی کھلائیں، دمے سے بچائیں

سڈنی: ماہرین نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ وہ بچے جو دمے کے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہیں انہیں مچھلی پابندی سے کھلائی جائی تو اس مرض سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

بچوں میں دمے کا مرض بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور کئی مرتبہ شدید مشکلات کی وجہ بھی بن جاتا ہے جس کے لیے اسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تیل بردار مچھلیوں مثلاً ٹراؤٹ، سامن اور سارڈین یا ترلی مچھلی کھانے سے خصوصاً بچوں میں دمے کے مرض کی شدت کم ہوجاتی ہے اور ان کے پھیپھڑے مضبوط اور بہتر ہوجاتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ مسلسل 6 ماہ تک بچے کو مچھلی کھلائی جائے۔

سڈنی میں واقع لا ٹروب یونیورسٹی نے ایک سروے سے ثابت کیا ہےکہ بالخصوص سامن، ٹراؤٹ، سارڈین اور دیگر تیل والی مچھلیوں سے بچوں کے پھیپھڑوں کی استعداد بہتر ہوتی ہے اور دمے کی کیفیت میں افاقہ ہوتا ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی سے وابستہ اور تحقیقی سروے میں شریک ڈاکٹر ماریا پاپا مائیکل کہتی ہیں کہ ’ ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ نمک ، چکنائی، شکر اور دمے کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے یعنی ان سے دمہ بڑھتا ہے تاہم اب دمے کو غذا کے ذریعے قابو کرنے کے کئی ثبوت سامنے آئے ہیں‘۔

اس مطالعے میں 64 ایسے بچوں کو شامل کیا گیا جنہیں درمیانی شدت کا دمہ لاحق تھا۔ ان میں سے نصف تعداد کو پودوں کی غذا اور مچھلیاں کھلائی گئیں جبکہ نصف تعداد کو ان کی پسند کا معمول کا کھانا دیا جاتا رہا۔ سروے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن بچوں کو میڈیٹرینیئن ڈائٹ یا سبزیوں اور مچھلیوں والی غذا دی گئی تھی ان کے پھیپھڑوں میں سوزش اور اینٹھن کم ہوئی۔

ماہرین اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ چکنائی والی مچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بکثرت پائے جاتے ہیں جو پھیپھڑوں کے علاوہ بھی پورے اندرونی بدن میں سوزش اور جلن کو رفع کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں ایک صاحب چھوٹی زندہ مچھلیاں دمے کے مریضوں کو نگلنے کے لیے دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایک بار اس کے استعمال سے پرانا دمہ ختم ہوجاتا ہے تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ تیل والی مچھلیوں کو پکا کر کھانا چاہیے اور اگر چھ ماہ تک دمے کے شکار بچوں کو کھلائی جائیں تو اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ تیل بردار مچھلیوں سے کئی اقسام کے کینسر کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے