توہین رسالت کے مقدمے میں بری ہونے والی آسیہ بی بی ویمن جیل ملتان سے رہائی کے بعد بیرون ملک روانہ

سپریم کورٹ کی جانب سے بریت کے فیصلے کے بعد توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ویمن جیل ملتان سے رہا کر دیا گیا۔

جیل ذرائع کے مطابق آسیہ بی بی کی روبکار بدھ کو ہی ویمن جیل ملتان کو موصول ہوئی تھی جس کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔

https://www.youtube.com/watch?v=o5mX6MgRdhE&t=3s

وزارت داخلہ کے اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ملتان جیل سے آسیہ بی بی کو راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس لایا گیا جہاں وہ اپنے خاندان سمیت بیرون ملک روانہ ہو گئی ہیں۔آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کے علاوہ پاکستان میں ایک یورپی ملک کے سفارت کار بھی جہاز میں سوار تھے۔آسیہ کے وکیل سیف الملوک نے اس بات کی تصدیق کی۔ تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کے مطابق آسیہ بی بی تاحال پاکستان میں ہی ہیں .

دوسری جانب آسیہ بی بی کی رہائی پر تحریک لبیک پاکستان نے رد عمل میں کہا کہ آسیہ بی بی کی رہائی حکومتی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پورے پاکستان کی فضا آسیہ کی رہائی کی خبر سن کر غم و کرب میں مبتلا ہے۔معاہدہ کی خلاف ورزی کر کے بدعہدی کی سیاہ تاریخ رقم کی گئی ہے۔

[pullquote]
حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدہ[/pullquote]

حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ آسیہ مسیح کے مقدمے میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے جو کہ مدعا علیہان کا قانونی حق و اختیار ہے۔ جس پر حکومت معترض نہ ہو گی۔ آسیہ مسیح کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے قانونی کارروائی کی جائے.آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف تحریک میں اگر کوئی شہادتیں ہوئی ہیں ان کے بارے میں فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے گی. آسیہ مسیح کے بریت کے خلاف 30 اکتوبر اور اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئی ان افراد کو فوری رہا کیا جائے گا. اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلا جواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے.

وفاقی حکومت نے آسیہ بی بی کی بیرون ملک روانگی کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے پنجاب حکومت سے کہا ہے کہ اگر تحریک لبیک پاکستان کی قیادت احتجاج کے لیے باہر نکلے تو اس کی قیادت کو گھروں میں نظر بند کر دیا جائے۔
یورپی پارلیمنٹ کے صدر انٹونیو تجانی نے ٹویٹ میں کہا کہ آسیہ بی بی جیل سے رہا ہو گئی ہیں اور ان کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ میں پاکستانی حکام کا شکر گزار ہوں۔ میں ان سے اور ان کے خاندان سے یورپی پارلیمنٹ میں جلد ملنا چاہتا ہوں۔

واضح رہے کہ آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے پیر کے روز ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم جیل پہنچنے میں دس سے بارہ دن لگتے ہیں۔ اس لیے ابھی آسیہ بی بی کو جیل سے رہا نہیں کیا گیا۔حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے سیف الملوک نے اسے تحریک لبیک پاکستان کے لیے ‘بچاؤ’ کا راستہ قرار دیا۔چند روز قبل لندن میں آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح اور بیٹی ایشام سے بات چیت کرتے ہوئے ایشام کا کہنا تھا کہ’میں نو سال کی تھی اور اس کے بعد سے میں اب تک ادھوری ہوں۔ دل کرتا ہے کہ ماما جلدی سے پاس آ جائے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور وہ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ جب ہماری ملاقات ہوتی ہے میں بہت روتی ہوں۔ وہ مجھے کہتی ہیں کہ دعا کروں کہ میں جلدی سے باہر آ جاؤں۔’

[pullquote]آسیہ بی بی کیس— کب کیا ہوا؟[/pullquote]

صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔

بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔

امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔

ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، اور سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے خاتون کی رہائی کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔

احتجاج کے دوران کئی شہریوں میں مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگادی تھی، 2 نومبر کی شب حکومت اور مظاہرین میں 5 نکاتی معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد ملک بھر میں دھرنے ختم کردیئے گئے تھے۔

دھرنے ختم کرانے کے بعد حکومت نے املاک جلانے اور پر تشدد واقعات میں ملوث شرپسندوں کیخلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز تک تحریک لبیک پاکستان کے ملک بھر کے دھرنوں کے دوران توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں ملوث 1800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ سیکڑوں مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

وزارت داخلہ نے بھی شرپسندوں کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جانے کی تصدیق کی تھی لیکن اب وفاقی وزرات داخلہ نے توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کی گرفتاریاں التواء میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام صوبائی حکومتوں کو مزید گرفتاریوں سے روک دیا ہے البتہ چیف جسٹس نے مظاہروں کے دوران ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا نوٹس لے لیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے