محرم کے لیے ضابطہ اخلاق ضروری ہے

یہ بات ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان نائن الیون کے بعد سے مسلسل اندرونی خلفشار کا شکار ہے، جس کے خاتمے کے لیے ریاست اور حکومت ان دنوں بڑی تندہی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ تہوار اور ایام ایسے بھی ہیں، جن کا حقیقی پیغام تو امن و آشتی کے سوا کچھ نہیں،لیکن انہیں بعض خانہ ساز نظریات کے تحت انتہائی بے اعتدالی کے ساتھ اس طرح برتا جاتا ہے کہ ان تہواروں اور خاص ایام میں لا اینڈ آرڈرکا چیلنج پوری حشر سامانی کے ساتھ پیدا ہوجاتا ہے۔

جب بھی یہ ایام ہماری قومی و ملی زندگی میں آتے ہیں، پورا معاشرہ عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے اور ہر شہری کے ذہن پر ایک انجانا خوف سوار ہوجاتا ہے۔ ان من جملہ ایام میں ماہ محرم کے ابتدائی ایام بھی ہیں،جو اسی روایت کے ساتھ شروع ہوچکے ہیں۔

ماہ محرم کی آمد سے قبل ہی ایک طرف مختلف مذہبی جماعتیں اپنی مذہبی سرگرمیوں کی تیاریاں شروع کردیتی ہیں اور دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے تمام چھوٹے بڑے اداروں میں تشویش کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ ایک جنگی صورت حال سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ جب تک محرم کے یہ شورش بداماں ایام گزرنہ جائیں، تب تک ریاست اور سماج بیک وقت سولی پہ لٹکے نظر آتے ہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ تمام تر پیش بندیوں، حدبندیوں،نظربندیوں ،گرفتاریوں ،تعیناتیوں ،تبادلوں ، احکامات،رابطوں اور دیگر حفاظتی اقدامات کے باوجود محرم کے یہ ایام کچھ ایسے خونیں حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتے ہیں، جن کے نتیجے میں اگلے دوماہ تک تعزیتوں، عیادتوں، احتجاجوں، مظاہروں،دھونس، دھمکیوں اورجلاؤ گھیراؤ کا ایک منہ زور سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

ہمیں ان حالات کے اسباب اور ان کے سد باب پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر کب تک ہم پوری قوم کو ایک خونین اور دہشت انگیز روایت کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔

ترجیحی بنیادوں پر ہمیں اس نقطہ نگاہ کے ساتھ ان جلوسوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا یہ جلوس ہماری مذہبی روایات ورسوم کا حصہ ہیں یا پھر کچھ مخصوص شورش نہاد مذہبی قوتوں کے شو آف پاور کا مستقل وسیلہ ہیں؟اگر ان جلوسوں کی جڑیں مذہب کی بنیادوں میں ملتی ہیں تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارے اڑوس پڑوس کی مذہبی ریاستوں میں محرم کے جلوس اسی نہج پہ نکلتے ہیں، جس نہج پہ پاکستان میں نکالے جاتے ہیں؟

اور اگر زمینی حقائق یہ بتلاتے ہوں کہ یہ ایک خونریز سیاسی سرگرمی ہے،تو پھر ہمیں ہرقسم کے دباؤ کونظر انداز کرتے ہوئے تمام مذہبی وسیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر اس اصلاً ’’احتجاجی سیاست‘‘ کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دینا ہوگا۔اگر ریاست اس فریضے کو ادا کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کے نتیجے میں جہاں امن و امان کا مسئلہ حل ہوجائے گا، وہاں ملک میں معاشی استحکام بھی آئے گا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے جلوس اور ریلیاں پاکستان جیسے ملک کے لیے معاشی اور اقتصادی طور پر کس قدر ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہیں، جن کی وجہ سے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں(Law Enforcement Agencies)، پولیس اور انتظامی اداروں کو ایک ہی رخ پہ لگانا پڑجاتا ہو اور ان مذہبی کم سیاسی جلوسوں کے باعث ملک بھر میں پہیہ جام ہوجاتا ہو، کاروبار زندگی معطل ہوجاتا ہو، دہشت گردی کے امکانات بڑھ جاتے ہوں،عدم تحفظ کا احساس جنم لیتا ہو،اشتعال انگیز تقاریر کا ایک ہوش ربا سلسلہ شروع ہوجاتا ہو،فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہو۔ بلاشبہ یہ جلوس مخصوص سیاسی مقاصد کے تحت نکالے جاتے ہیں۔

ان کے پس پردہ مذہبی سے زیادہ سیاسی روح کار فرما ہوتی ہے، مگر کمال ہوشیاری سے انہیں مذہب سے نتھی کرکے بلاوجہ کی حساسیت پیدا کردی گئی ہے۔

قوم کو اپنے شعور اور عزم کی قوت سے ان اوہام کا فسوں توڑنا ہوگا، جو ہماری قومی اور ملی زندگی کے لیے مسلسل ایک روگ بنے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں ریاست کو بھی بقائے باہم کے عمرانی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر معاشرے کی اکائیوں کو اعتدال پر رکھنے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس سلسلے میں ہمارے لیے برادر ملک ترکی میں رائج طریقہ کار بھی مشعل راہ بن سکتا ہے۔ ترکی میں محرم کے انہی ’’حساس‘‘ دنوں میں امام بارگاہوں میں ایک مجسٹریٹ اور ایک اہل سنت عالم دین کی موجودگی میں مجلسیں کروائی جاتی ہیں، جبکہ سڑکوں پر کوئی ’’عزاداری‘‘ کے لیے نہیں نکل پڑتا، اس کے نتیجے میں وہاں کوئی غیر معمولی حساسیت جنم لیتی ہے اور نہ ہی محرم وہاں خوف و دہشت کا مہینہ بن کر آتا ہے۔

ان حالات کے پیش نظر میں ارباب اقتدار سے اپنی جماعت کی طرف سے یہ مطالبہ کروں گا کہ محرم الحرام میں بلا امتیاز تمام تر مذہبی سرگرمیوں کو متعلقہ مذہبی مراکز تک محدود کردیا جائے۔ پارلیمنٹ کی رہنمائی میں محرم کے لیے خصوصی ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ مسلسل ہزیمت کی شکار قوم کو سکھ کا سانس لینے کے لیے پرامن ماحول میسر آسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: اس مضمون کے جواب میں اگر قارئین اپنا جوابی مضمون بھیجنا چاہیں تو ادارہ اسے شائع کرے گا تاہم مضمون میں شائستگی کا خیال رکھا جائے۔ مضمون بھجوانے کے لیے ہمارا برقی پتہ نوٹ فرما لیں

ibcurdu@yahoo.com

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے