ہفتے کے روزساہیوال میں پولیس کے کاؤنٹر ٹیرزم ڈیپارٹمنٹ کے جوانوں نے چار بے گناہوں کو گولیوں سے بھون کر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا دی ہے ۔مقتولوں میں مہر خلیل ، اسی کی تیرہ سالہ بچی ، بیوی اور ایک دوست شامل ہے ۔ کتنا اذیت ناک تصور ہے کہ گاڑی موجود تین بچوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین اور 12 ساکہ بہن کو تڑپ کر مرتے دیکھا ۔ پولیس نے روایتی پھرتیاں دکھائیں ۔ مرنے والوں کو پہلے اغوا کار اور پھر داعش کے سہولت کار قرار دے دیا ۔ زخمی ہو کر زندہ بچ جانے والے بچے کی ویڈیونے مگر بھانڈا پھوڑ دیا ۔ پھرپولیس کی جانب سے کہا گیا کہ انٹیلی جنس کی ’’پکی رپورٹ‘‘ پر کارروائی کی گئی ۔ پولیس نے رات گئے موقف دیا وہ بھی یک رُخا اور مضحکہ خیز تھا۔ ایف آئی آر کٹی تو اس میں بھی مجرموں کے نام کی بجائے لکھا گیا ’’تقریباً 16 کس‘‘ ۔یہ سب ہمارے بوسیدہ انتظامی ڈھانچے کو ننگا کرنے کے لیے کیا کم ہے؟
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہوبولتا بھی ہے
پاکستان میں پولیس مقابلے ہمیشہ سے مشکوک رہے ہیں ۔یہاں’’ پولیس مقابلے ‘‘ ایک ایسی محفوظ آڑ ہے جس کے پیچھے ذاتی دشمنی ، اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم کی ایک بڑی انڈسٹری کام کر رہی ہے۔یہ قتل کا ایسا محفوظ طریقہ ہے جس کی کسی عدالت میں پوچھ نہیں ہوتی۔ کراچی میں گزشتہ برسوں میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں سینکڑوں بے گناہوں کو ’’پار‘‘ کیا گیا ۔ ان مقتولوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہیں ’’دہشت گرد‘‘ باور کرنے کے بعد صرف اس لیے مار دیا گیا کہ اگر معاملہ عدالت تک گیا تو یہ چھوٹ جائیں گے ۔ راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا قتل ہونا تو محض ایک واقعہ ہے جو ہائی لائٹ ہوگیا ورنہ ظلم کی اس بھٹی میں اب تک کتنی ماؤں کے لال جھونکے جا چکے ہیں ۔رینجرز کے جوانوں نے چند سال قبل کس طرح کراچی میں ایک نوجوان سرفراز کو بھون دیا تھا ۔ وہ ہاتھ جوڑتا، التجائیں کرتا اپنے خون میں نہا گیا تھا۔کیا ہوا؟ یہ قتل رُک گئے کیا؟ اب نقیب محسود کے معاملے میں کیانکلاا ، راؤ انوار تو دندناتا پھر رہا ہے ۔کسی کی مجال نہیں کہ اسے ہتھکڑی ڈال سکے۔
سی ٹی ڈی کی کل کی شرمناک اور انسانیت سوز کارروائی کے بعد سے پورا محکمہ ان قاتلوں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:’’مجاں مجاں دیاں بہناں ہوندیاں‘‘ ، یعنی بھینسیں آپس میں بہنیں ہوتی ہیں۔ سیکورٹی اداروں کی راویت یہی ہے کہ ’’اپنے بندے کو بچاؤ‘‘ اس کے لیے چاہے جو بھی ڈرامابنا نا پڑے بناؤ ۔ یہی ہو رہا ہے ۔ یہ جے آئی ٹی اور تحقیقاتی کمیشن سب ڈھکوسلے ہیں ۔ اکثر ان کے ذریعے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مہلت لی جاتی ہے ۔ جب واقعے کے خلاف عوامی اشتعال ذرا کم ہوتا ہے تو ’’تحقیقات‘‘ کے نام پرکوئی کہانی سامنے آتی ہے جس کا خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ’’اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔ معاملہ دفن ہوجاتا ہے۔ پھوڑے کی جراحی نہیں کی جاتی بلکہ اسے کسی مرہم سے عارضی طور پرلیپ دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ پھر پھٹتا ہے ۔ پیپ پھیلتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
دیکھا جا رہا ہے کہ دو دن سے لوگ پنجاب پولیس اور کاؤنٹر ٹیرزم ڈیپارٹمنٹ کو برا بھلا کہہ رہے ۔ قتل ناحق کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ کسی واقعے نے لوگوں کی بڑی تعداد کو سوال اٹھانے پر مجبور تو کیا ہے ورنہ یہاں کیا کیا قیامت نہیں گزری ۔ ملک کے پس ماندہ کونوں کھدروں میں ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’دہشت کی سہولت کاری‘‘ کے عنوان سے لوگ مسلسل اٹھائے جاتے ہیں ، واپس توکوئی کوئی آتا ہے ،اکثر مار دیے جاتے ہیں ۔ نہ ان کی ’’گرفتاری‘‘ کا کہیں اندراج ہوتا ہے اور نہ قتل کے بعد کوئی عدالت لگتی ہے ۔ مارنے والے اخبار والوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ ’’دس خطرناک دہشت گرد مقابلے میں مار دیے گئے اور ان سے بھاری اسلحہ برآمد کر لیا گیا‘‘ ۔ خبر چھپ جاتی ہے ۔ قاتل تعریفی اسناد لے کر نئی شکارگاہوں کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کیا ’’دہشت گردی کو کاؤنٹر کرنے‘‘ کے نام پے قائم اس انڈسٹری کے احتساب کا بھی کوئی طریق بنے گا یا یونہی چلتا رہے گا؟ ہمیں انہی کے کہے پر ایما ن لانا پڑے گا؟
اگر بچوں کے سامنے وردی میں ملبوس یا سادہ لباس لوگ ان کے والد یا بھائی کو گھر سے یہ بتا کر لے جائیں کہ ’’کچھ پوچھنے کے لیے لے جا رہے ہیں ۔‘‘ پھر مہینوں بعد بھی وہ واپس نہ آئے ۔تھانہ ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر کاٹنے سے نکار کر دے۔ لے جانے والوں سے ان کے بارے میں پوچھا جائے کہ ’’وہ ابھی تک کیوں واپس نہیں آئے ‘‘ تو جواب ملے کہ ’’وہ تودہشت گردوں میں شامل ہو چکا ہے اور مار دیا گیا ہے ‘‘ تو سوچیے کہ ان بچوں کی کیا حالت ہوگی ۔ دُکھ ،ردعمل اور نفرت انہیں کیا سے کیا بنا دے گی ۔ کل سی ٹی ڈی نے جس طرح بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بارہ سالہ بہن کوکو قتل کیا ،اس صورت حال میں ریاست کیا یہ توقع رکھنے کا حق رکھتی ہے کہ مستقبل میں وہ بچے انتقامی نہ بنیں؟نفرت اور دہشت گردی تو ریاستی اداروں کی نااہلی اور بدنیتی کے سبب پنپ رہی ہے۔
ہمیں ہر اس مقتول کا ساتھ دینا چاہیے جس کو کسی نے بھی قانون سے بالا ہو کر قتل کیا ہو ۔ ہمیں ہر اس مغوی کی حمایت کرنی چاہیے جسے گھر سے اٹھا کر بغیر کسی قانونی بنیاد کے لاپتا کر دیا گیا ہو۔ ہمیں پاکستان میں جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کے قتل کے خلاف مسلسل آواز اٹھانی چاہیے ۔ مظلوم پنجاب کا ہو، بلوچستان کا ہو ،سندھ کا ہو، پختون خوا کا یا گلگت بلتستان کا، ہمیں اسی کا ساتھ دینا چاہیے ۔ قانون سے ماوراء غائب کیے گئے لوگوں کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ ’’کچھ تو کیا ہوگا جبھی اٹھایا ہے‘‘ بے حسی اور انسان دشمنی ہے ۔ مطالبہ یہ کرنا چاہیے کہ’’ جو کچھ بھی کیا ہے عدالت کے سامنے لاؤ ۔ خود عدالت نہ لگاؤ ۔ لوگوں کے پیسوں کی بندوقوں سے انہی کو قتل نہ کرو۔نفرتوں کے بیج نہ بوؤ ۔انسانوں پر رحم کرو‘‘
ملک کے سب سے بڑے اور فیصلہ ساز ایوانوں میں اس معاملے نئی بحث کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں فرسودہ قوانین اور تفتیش کے انسان دشمن ضابطوں کا خاتمہ ہو،ملک میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں ، جعلی پولیس مقابلے اور ان میں ہونے والے قتل عام کا سدباب ہو۔ہمیں سماجی حلقوں میں انسانی حقوق کے بارے میں گفتگو کو مغربی ا یجنڈہ کہہ کر مسترد کر دینے کی عادت چھوڑنی ہوگی ۔ ریاست ہر فرد کے جان ، مال ، آبرو ، حق اظہار اور آزادانہ نقل وحرکت کے بنیادی حق کی آئین کی روسے ضامن ہے ۔ لیکن یہاں ریاست اپنے فرائض کی ادائی میں بدترین غفلت کا شکار ہے ،اس صورت حال میں لوگوں کوچاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم ہوں۔ ایک سانحے پر نہیں بلکہ جہاں بھی شہری حقوق پامال ہوں ، فوراً اٹھ کھڑے ہوں ، سوال اٹھائیں ۔ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک حق مل نہ جائے۔