47ء میں صرف نفرتیں تقسیم ہوئیں

 بھارت کی سیکولرزم کی دھجیاں اڑانے سے پہلے اپنے ملک کی مذھبی و سیکولر انتہا پسندی پر دھیان دو ۔ وہاں کی علیحدگی کی تحریکوں پر خوش ھونے سے پہلے اپنے بلوچستان میں بغاوت کرنے والوں کی فکر کرو ۔ جس ملک میں لاکھوں لوگ پینے کے پانی کی وجہ سے ہر سال مرتے ھوں وہ ھندوستان میں ھندووں کے ہاتھوں ایک قتل پر واویلا مچائے ۔ اس پر جچتا نہیں ۔ جہاں دن دھاڑے انسانوں کو زندہ جلایا جائے اور اقلیتیں نقل مکانی کر جائیں وہ دوسرے ملک میں گائے کی وجہ سے انسانی خون کی ارزانی پر احتجاج کرے ۔ اس کو زیب نہیں دیتا۔ جو اپنے شہریوں کی جان ، مال ، آبرو کو تحفظ نہ دے سکے وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائے ۔ شرم بھی کوئی چیز ھوتی ھے ۔ جس ملک کا وزیراعظم نواز شریف جیسا بندہ ھو وہ قوم مودی پر تنقید کرے ۔ ذہنی معائنہ کروانا چاھئے ۔

کس نے کہا برصغیر تقسیم ھوا ۔ فرق صرف ناموں کا ھے ورنہ دونوں ملک ھی خود کفیل ھیں۔ یہاں عبداللہ یہ عمل کرتا ھے تو وہاں موہن داس ۔ ھندوستان کی تقسیم اس معاملے میں نہیں ھوئی۔ ھم ابھی تک تقسیم ھند سے پہلے کے مقام پر کھڑے ھیں ۔ ایسا لگتا ھے اس سرزمین کے لئے وقت منجمد ھو گیا ھے 1947 کے لمحے میں ۔ مگر نفرتیں ضرور تقسیم ھوئی ھیں ۔ عداوتوں کا تبادلہ لازما ھوا ھے ۔ انتہا پسندی کی میراث بلکل برابر بانٹی گئی ھے ۔ بے حسی دونوں طرف عین عدل میں موجود ھے ۔ جاھلیت کی تقسیم میں مساوات برتی گئی ھے ۔ کس نے کہا سرزمین ھندوستان تقسیم نہیں ھوئی ۔ بلکل انصاف کے اصول پر ھوئی ھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے