کے۔ ایچ خورشید 3 جنوری 1924 کوریاست جموں کشمیر کے شہر سری نگرکے علاقےآبی گذر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا پورا نام خورشید حسن خورشید تھا۔آپ کے والد مولوی محمد حسن گلگت کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔یہی وجہ ہے کہ خورشید کے بچپن کے ابتدائی برس گلگت ہی میں گزرے۔ بعد میں آپ نے امر سنگھ کالج سری نگر سے گریجویشن مکمل کی ، آپ نے اپنے کالج کے دنوں میں کشمیر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی اور محمد علی جناح سے آپ کی پہلی ملاقات19 نومبر 1942میں جالندھر میں ہوئی۔ کے ایچ خورشید نے اس زمانے میں ایک ہفت روزے ’’جاوید‘‘ کے لئے مضامین بھی لکھے ۔
بعد ازاں آپ اس زمانے کی واحد مسلم نیوز ایجنسی ”اورینٹ پریس آف انڈیا” کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ جب محمد علی جناح 1944میں چھٹیاں گزارنے آخری بار سری نگر گئے تو اورینٹ کے نمائندے کی حیثیت سے کے ایچ خورشید اُن سے ملے۔اس ملاقات میں مسٹر جناح آپ کی لیاقت کو بھانپ گئے اور انہیں26جون 1944 کو اپنے پرسنل اسٹاف میں شمولیت کی پیش کش کردی، جو کے۔ایچ خورشید نے قبول کر لی اور 4جولائی1944 کو آپ محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکرٹری بن گئے ۔ یوں آپ کو تقسیمِ ہندکے دنوں کی ہنگامہ خیز سیاست کے انتہائی قریب سے مشاہدے کا موقع ملا ۔
جب ہندستان تقسیم ہوا تو محمد علی جناح نے کے ۔ایچ خورشید کو دو مرتبہ ریاست جموں وکشمیر بھیجا ۔پہلی بار وہ 1947 کے موسم گرمامیں سری نگر گئے لیکن وہاں کا مہاراجہ ہری سنگھ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنی ریاست کے مکمل الحاق کے لیے تیار نہیں تھا۔ خورشید اکتوبر1947میں محمد علی جناح نے دوبارہ کشمیر بھیجا ۔ا س وقت مہاراجہ ہری سنگھ مہرچند مہاجن کو رام چندرا کاک کی جگہ اپنا وزیراعظم مقرر کر چکا تھا ۔ مہر چن مہاجن کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس سے خاص ربط رکھتے ہیں جبکہ رام چندرا کاک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے.
اس کے بعد پاکستان میں مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے میجر خورشید انور نے صوبہ سرحد (اب پختون خوا)کے پختون قبائل کے ذریعے 22اکتوبر 1947 کو ریاست جموں وکشمیر پر حملہ کروا دیا۔ قبائلی حملے کے وقت کے.ایچ خورشید کشمیر ہی میں تھے ۔چنانچہ 2نومبر 1947 کو انہیں ریاست جموں وکشمیر کی پولیس نے گرفتار کر لیا اور پھردو سال بعد 27 جولائی 1949 کوپاکستان اور انڈیا کے عسکری نمائندوں کے درمیان ہوئے’ کراچی معائدے‘ یعنی متارکہ جنگ کے معائدے کے بعد آپ کی رہائی ممکن ہوسکی۔پاکستان واپسی کے کچھ عرصہ بعد آپ قانون کی تعلیم کے لیے لنکنز اِن (برطانیہ) چلے گئے ۔ وہاں سے بارایٹ لاء کرکے 1954 واپس لوٹے اور کراچی میں وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔
یکم مئی 1959کو پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب خان نے کے۔ایچ خورشید کو پاکستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر(آزادکشمیر) کا صدر مقرر کیا۔آپ یہ عہدہ لینے کے معاملے میں پہلے تذبذب کا شکار تھے لیکن اپنی مُحسن اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی مشورے پر بالآخرآپ نے یہ عہدہ قبول کر لیا۔ خیال رہے کہ فاطمہ جناح نے کے۔ایچ خورشید کی طویل عرصہ تک سرپرستی کے ساتھ ساتھ لنکنز اِن سے بار ایٹ لاء کی تعلیم کے لیے ان کی مالی مدد بھی کی تھی۔بعد میں ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن (دسمبر 1964)میں خورشید فاطمہ جناح کی جانب سے چیف پولنگ ایجنٹ بھی بنے۔
کے ۔ایچ خورشید نے جنرل ایوب کی بنیادی جمہوریتوں کے تحت 1961 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پہلے الیکشن منعقد کروائے اور صدارت کا انتخاب جیت گئے۔کے ایچ خورشید کا عہد صدارت پاکستان کی امور کشمیر کی وزارت کے ساتھ مسلسل تناؤ میں گزرا کیونکہ یہ وزارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قیادت کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتی تھی اور یہ خورشید کو کسی طور قبول نہیں تھا۔
1962میں آپ نے جموں وکشمیر لبریشن لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جس کا مطالبہ تھا کہ ’آزادکشمیر‘ کی حکومت کوریاست جموں کشمیرکی نمائندہ آزادحکومت تسلیم کیا جائے تاکہ وہ براہ راست تنازع کشمیر کواس کے منطقی حل تک پہنچا سکے۔کشمیر کی شناخت کوتسلیم کروانے کے مطالبے کے بعد سیاسی مخالفین اور پاکستان کی طاقتوراسٹیبلشمنٹ اُن کے خلاف ہو گئے اور انہیں ’’پاکستان مخالف‘‘ قرار دینے لگے۔ اس وقت خفیہ ایجنسیوں نے کے۔ایچ خورشیدکے بارے میں اعلیٰ فیصلہ ساز حکام کو رپورٹ کیاکہ وہ ’’ایک آزاد اور خودمختارکشمیر‘‘ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر خورشید حسن خورشید کو 5اگست 1964کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی صدارت چھوڑنی پڑی۔
کچھ عرصہ قبل حکومت پاکستان کی منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق اس وقت کے ۔ایچ خورشید کی صدارت کو ”پاکستان اور اس کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے مفاد کے خلاف” قرار دے کرانہیں اس عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
خورشید حسن خورشید کے استعفے کے پس منظر میں ممتاز کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے 1964 کے دورۂ پاکستان کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ، جب ان کا استقبال، چکلالہ ایئر بیس راولپنڈی پر، پاکستان کے اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ کے۔ایچ خورشید نے استقبالی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کیا تھا ۔
اس دورے کے دوران 27 مئی 1964 کو شیخ عبداللہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد بھی گئے تھے۔ وہاں ایک ملاقات میں شیخ عبداللہ اور کے ایچ خورشید کے مابین ہونے والی گفتگو کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے شک کی نگاہ سے دیکھا اورکچھ مقامی سیاسی مخالفین نے اس شک کو تقویت دینے کی کوششیں کیں۔ اس وقت کے پاکستانی وزیرامور کشمیر اور دیگر فیصلہ سازوں نے اسی وقت یہ طے کر لیا تھاکہ کے۔ایچ خورشید کو اُن کے عہدے سے ہٹایا جانا ضروری ہو گیا ہے ۔اسی دوران شیخ عبداللہ کوہندستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی اچانک موت کی وجہ سے اپنادورہ مختصر کر کے واپس جانا پڑا، اس طرح کشمیر کے تنازع کے حل کا ایک سنہری موقع ضائع ہو گیا اور اگلی سات دہائیوں کے لیے ریاست جموں وکشمیر کے باشندے شناخت کے بدترین بحران کا شکار ہوگئے۔
جب 1965میں پاکستان کی جانب سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں خفیہ آپریشن ‘جبرالٹر’ شروع کیا گیا تو کے ۔ ایچ خورشید کو اس کی مخالفت کی بنا پر راولپنڈی میں واقع میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ کے گھر سے خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے گرفتار کیا اور بدنام زمانہ دلائی کیمپ میں ایک سال کے لیے قید کردیا۔
کے۔ ایچ خورشید نے اپنی سیاسی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کوکچھ عرصے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی میں ضم بھی کیا لیکن بہت جلد انہیں احساس ہوا کہ یہ فیصلہ درست نہیں تھا، سویہ انضمام قائم نہ رہ سکا ۔ وہ لبریشن لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو بااختیار بنانے کے لیے برابرتگ ودو کرتے رہے ۔ یہ انہی کی کوششوں کا ثمر تھا کہ1970 میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو پہلا عبوری آئین ایک ایکٹ کی صورت میں ملا ۔
آزادکشمیر میں ایجنسیاں اور مقامی انتظامیہ ان کی سیاسی جماعت کی سرگرمیوں کی کافی کڑی نگرانی کرتی رہیں۔پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹرجنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں قائداعظم کی ایک ڈائری برآمد کی گئی جس کے حوالے سے ضیاءالحق نے یہ دعویٰ کیا کہ قائداعظم پارلیمانی جمہوریت کے حامی نہیں تھے ۔ضیاء الحق اس کے ذریعے اپنے اقتدار پر قبضے کو جواز بخشنا چاہتے تھے لیکن کے ۔ ایچ خورشید نے جنرل ضیاء کے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔یوں وہ جعلی ڈائری ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی اور اس کے بعد کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
کے۔ ایچ خورشید 11مارچ 1988 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر میرپور سے لاہورکے لیے ایک پبلک وین میں سفر کررہے تھے۔دورانِ سفر وین حادثے کا شکار ہو گئے اور خورشید جان کی بازی ہار گئے ۔ اس طرح وہ کشمیری سیاسی رہنما جسے دیانت ، خودداری اور سیاسی بصیرت کی علامت کے طور پر جانا گیا ، وہ شخص جس کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کے یہ الفاظ کثرت نقل کئے گئے کہ ’’پاکستان میں ، میرے پرائیوٹ سیکرٹری اوراس کے ٹائپ رائٹر نے بنایا ہے ‘‘، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا اور حادثے کے بعد عینی شاہدین نے بتایا کہ اس وقت ان کی جیب میں کل جمع پونچی محض چند روپے تھے ۔ کے۔ایچ خورشید کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں دفن کیا گیا اور وہاں ان نام سے ایک وسیع لائبریری اور فٹ بال گراؤنڈ بھی ہے۔
کے۔ ایچ خورشید نے اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود کوئی جائیداد بنائی اور نہ ہی ان کا پاکستان یا کشمیرمیں اپنا کوئی ذاتی گھر تھا۔ ان کی اہلیہ کئی کتابوں کی مصنفہ بیگم ثریا خورشید ہیں ،اولاد میں ایک بیٹا خرم اور بیٹی یاسمین ہے۔کے ایچ خورشیدکو ان کی قوم نے ’’خورشید ملت‘‘ کا لقب دیااور آج بھی اسی لقب انہیں یاد کیا جاتا ہے۔