ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دو زبانیں بولنے والے بچوں کو صرف ایک زبان میں لکھنا پڑھنا جاننے والے بچوں پر معاشی فوائد کے حوالے سے برتریحاصل ہے۔
‘یونیورسٹی کیلیفورنیا لاس اینجلس’ اور ایک غیر منافع بخش تنظیم ‘ایجوکیشنل ٹیسٹنگ سروس’ کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق تارکین وطن پس منظر کےحامل بچے جو انگریزی کے علاوہ اپنی مادری زبان میں لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں انھیں لیبر مارکیٹ میں کثیر السانی صلاحیتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے فائدہ حاصل ہے۔
این بی سی نیوز کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ تارکین وطن پس منظر کےحامل گھرانوں کے بچے جو صرف انگریزی بولنا جانتے ہیں اور گھر میں بولی جانے والی اپنی مادری زبان کو برقرار نہیں رکھتے ہیں وہ اندازاً 2000 سے5000 ڈالر سالانہ خسارے میں تھے۔
اس کے برعکس ایسے تارکین وطن بچے جو انگریزی کے علاوہ اپنی مادری زبان بھی جانتے تھے ان میں صرف انگریزی بولنے والے بچوں کے مقابلے میں زیادہ آمدنی کمانے کا امکان تھا۔
یہ 20 سے 30 برس کے نوجوانوں کے ذاتی اعداد و شمار پر مشتمل ایک مطالعہ تھا جو پیشہ وارانہ زندگی میں داخل ہوئے تھے۔
مطالعے سے یہ بھی وضاحت ہوئی کہ یہ نتائج ان بچوں کے لیے مزید بہتر تھے جو دونوں زبانیں مہارت سے بولنا جانتے تھے ایسے بچوں میں ہائی اسکول کے بعد اعلیٰ تعلیم اور بہتر اعلیٰ حیثیت کے شعبوں میں ملازمت کا امکان تھا اور ان کے پاس زیادہ متنوع سماجی نیٹ ورک ہونے کا موقع تھا۔
تازہ مطالعے میں محققین نے متعدد ایسے مطالعوں کے نتائج کو ملا کر دیکھا جس میں کہا گیا تھا کہ بچوں کے لیے دو زبانیں بولنا نقصان دہ ہے جبکہ اس سے قبل اساتذہ اور والدین بھی اس خیال کے مخالف تھے کہ بچے گھر میں اپنی مادری زبان میں بات کیا کریں۔
تاہم امریکی تجزیہ کاروں کی ٹیم کا کہنا تھا کہ دو زبانیں بولنے والے بچوں کی لسانی صلاحیتوں کے معاشی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق کی مصنفہ پیٹریشیا گینڈرا نے کہا کہ دو زبانوں میں بات چیت کرنے کی صلاحیت اور ثقافتی لحاظ سے مختلف افراد کے ساتھ بات چیت کرنے کی مہارت ہماری جدید دنیا میں بہت اہم ہوتی جا رہی ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سول رائٹ پراجیکٹ کی شریک ڈائریکٹر پیٹریشیا گینڈرا نے نشاندہی کی کہ امریکہ میں رہنے والے لاطینی بچے جو انگریزی کے ساتھ ہسپانوی زبان بولنا جانتے ہیں، چار سالہ کالج کی ڈگری میں داخلہ لینے والے طلبہ میں ان کی شرح زیادہ ہے۔
محقق نے کہا کہ ہم نے یقینی طور پر گھر میں بولی جانے والی زبانیں برقرار رکھنے کے لیے بچوں کی مدد پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں رکھی ہے جس کا انھیں لیبر مارکیٹ میں نقصان ہوا ہے۔
انھوں نے انگریزی زبان سیکھنے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ انگریزی زبان میں بات چیت کرنا چاہیئے لیکن تارکین وطن کی زبانیں برقرار رکھنا انھیں الگ سے اضافی فائدہ پہنچاتا ہے۔
محقق نے کہا کہ ہمیں ایسے ثبوت ملے تھے کہ لیبر مارکیٹ میں دو زبانوں کے فوائد موجود ہیں لیکن وہ اس سے آگے یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ امریکی لیبر مارکیٹ میں دو زبانیں بولنے والوں کو پہنچنے والا فائدہ کتنا بڑا ہے۔
اگرچہ ابتدائی طور پر محققین کو پتا چلا کہ دو زبانیں بولنے والے افراد انگریزی بولنے والے لوگوں کے مقابلے میں اچھی ملازمتوں پر کم نمایاں تھے۔
تاہم محقق پیٹریشیا نے امریکہ سے باہر بھی تارکین وطن کی زبانوں پر مزید مطالعے کیے اور یہ نتیجہ نکالا کہ دو لسانی ہونے کا فائدہ اضافی آمدنی اور بہتر تعلیمی نتائج کی صورت میں نکلتا ہے۔
گذشتہ مطالعوں میں بتایا گیا ہے کہ اگر بچہ اچھی طرح سے مادری زبان سیکھ چکا ہے تو انھیں دوسری زبانیں سیکھنے میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ مادری زبان اور دوسری زبان ایک دوسرے کو سہارا دیتی ہے۔
اس طرح دو زبانوں کے ثقافتی فوائد کےحوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اقلیتی پس منظر کے حامل گھرانوں کے بچے جو اپنے والدین کی زبان پر عبور رکھتے ہوں انھیں اپنے والدین کے تہذیبی ورثے میں حصہ پانے کا زیادہ موقع ملتا ہے اس طرح بچے کی شناخت کو تقویت ملتی ہے۔
جبکہ دو زبانیں بولنے والے افراد کو طبی لحاظ سے بھی فوائد حاصل ہیں جیسا کہ ایک حالیہ اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ دو زبانیں بولنے والے افراد کو دماغی بیماری ڈیمینشیا لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے