ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایپل اور اینڈروئڈ سمارٹ فونز کے صارفین کی معلومات محفوظ نہیں ہیں اور ان فونز کی بعض ایپس اپنے صارفین کی بہت سی معلومات تیسری پارٹیوں کو بھی فراہم کر رہی ہوتی ہیں۔
میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی)، ہارورڈ یونیورسٹی اور کارنیگی میلن یونیورسٹی کے محققین نےگوگل پلے اور ایپل ایپ سٹور پر موجود 110 ایپس کا تجزیہ کیا۔
انھوں نے یہ دیکھا کہ 73 فیصد اینڈروئڈ ایپس اپنے صارفین کے ای میلز اور ایڈریسز دوسروں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں اور ایپل کی 47 فیصد ایپس ایسی ہیں جو اپنے صارف کے مقام کے متعلق معلومات شیئر کرتی ہیں۔
پرائیوسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس بات کے اور بھی بہت سے شواہد موجود ہیں کہ کس طرح یہ آلات ’ہمیں دھوکہ دیتے ہیں۔‘
میرے بارے میں کون کیا جانتا ہے؟ موبائل ایپس کا صارفین کے ذاتی مواد یا معلومات کو تیسری پارٹیوں کو فراہم کرنے کے پس منظر سے متعلق ایک سروے کے نام سے کی جانے والی ایک تحقیق میں 55 انتہائی مقبول اینڈروئڈ ایپس اور اتنی ہی تعداد میں آئی او ایس ایپس کی جانچ کی گئی۔
محققین نے ایچ ٹی ٹی پی اور ایچ ٹی ٹی پی ایس پر ٹریفک ریکارڈ کی جو مختلف ایپس کے استعمال کے دوران وقوع پذیر ہوتی ہے اور خبررسائی کرتی ہے جس میں ذاتی قابلِ شناخت معلومات، ان کے برتاؤ کا مواد جیسے کہ سرچ ٹرمز اور لوکیشن ڈیٹا شامل ہیں۔
انھوں نے دیکھا کہ اینڈروئڈ ایپس حساس معلومات اوسطاً 3.1 تیسری پارٹی ڈومینز کو بھیجتی ہیں جبکہ آئی اوایس ایپس 2.6 تیسری پارٹی ڈومینز سے منسلک ہوتی ہیں۔
امکان ہے کہ آئی او ایس ایپس کے مقابلے میں زیادہ تر اینڈروئڈ ایپس ذاتی معلومات شیئر کرتی ہیں جیسے اینڈروئڈ ایپس نام (49 فیصد ایپس شیئر کرتی ہیں) اور پتہ (25 فیصد شیئر کرتی ہیں) جبکہ آئی او ایس ایپس 18 فیصد تک نام اور 16 فیصد تک ای میل ایڈریس شیئر کرتی ہیں۔
طبی معلومات
محققین نے دریافت کیا کہ ہر 30 میں سے تین طبی (میڈیکل)، صحت اور فٹنس ایپس ایسی ہیں جن پر صارف جو کچھ سرچ کرتا ہے اور جو معلومات ذخیرہ کرتا ہے وہ اسے تیسری پارٹی سے شیئر کر دیتی ہیں۔
اینڈروئڈ فون کی صحت کے بارے میں بنائی گئی ایک ایپ ’ڈرگز ڈاٹ کُام‘ طبی معلومات تیسری پارٹی کے پانچ ڈومینز کے ساتھ شیئر کرتی ہے جس میں ڈبل کِلک ڈاٹ نیٹ اور گوگل سینڈیکیشن ڈاٹ کُام نامی ویب سائٹیں شامل ہیں۔
سب سے زیادہ معلومات لِیک کرنے والی آئی او ایس ایپ ’لولی سکوپ‘ تھی جو لوکیشن (صارف کے مقام سے متعلق) براؤزر ہے یہ ایپ صارف کی معلومات 17 تیسری پارٹیوں کے ڈومینز کو فراہم کر دیتی ہے۔
محققین لکھتے ہیں کہ ’ان ایپس کے اس ڈومین کے ساتھ منسلک ہونے کا مقصد اب تک غیر واضح ہے تاہم اس کی موجودگی کے مقصد کو جاننے کا اشتیاق پیدا ہوگیا ہے۔ جب ہم کسی بھی ایپ کو چلائے بغیر اپنا فون استعمال کرتے ہیں تب بھی اینڈروئڈ فون اس ڈومین سے مستقل منسلک رہتا ہے۔‘
اُن کے مطابق اس کنکشن کے جُڑنے کی ’وجہ امکانی طور پر شاید اینڈروئڈ فون کے پس منظر میں چلنے والا عمل ہوتا ہے۔‘
بی بی سی کی جانب سے گوگل کو سیو موو ڈی ایم ڈاٹ کُام نامی ڈومین کے متعلق مزید وضاحت فراہم کرنے کے متعلق کہا گیا تھا لیکن گوگل کی جانب سے اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
پرائیوسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ نے ’بہت سے اُن عوامل پر روشنی ڈالی ہے کہ جن آلات کو ہم استعمال کرتے ہیں وہ ہمیں دھوکہ دے سکتے ہیں۔‘
پی آئی کمپنی کے ایک ٹیکنالوجسٹ کرسٹوفر ویدرہیڈ کہتے ہیں: ’اس تحقیق میں کیے گئے تجزیے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن ایپس کی جانچ کی گئی، ان کی بڑی تعداد حساس معلومات کا تبادلہ کرتی ہیں جیسے کہ مقام (لوکیشن)، نام، ای میل ایڈریسز وغیرہ تیسری پارٹی کے ساتھ شیئر کرتی ہیں اور بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس تبادلے میں صارف کی اپنی مرضی شامل ہو۔‘
ویب سائٹس لِیک
صارفین ایپس کی جانب سے تیسری پارٹیوں کو شیئر کردہ مواد کی مقدار کے متعلق روز بروز فکر مند ہوتے جا رہے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے دو ہزار امریکیوں کیے گئے سروے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ بات جاننے کے بعد کہ کسی بھی ایپ جسے وہ اپنے فون میں انسٹال کرنا چاہتے ہیں اُس کے استعمال کے لیے اُنھیں کتنی حد تک معلومات کو شیئر کرنے کی ضرورت ہوگی 54 فیصد صارفین نے کسی ایپ کو اپنے فون میں انسٹال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح کی ایک تحقیق گذشتہ ماہ پینسلوینیا یونیورسٹی کے ایک محقق ٹموتھی لِبرٹ نامی ایک محقق کی جانب سے بھی کی گئی جن کے مطابق ہر دس میں سے تقریباً نو ویب سائٹس صارف کی معلومات تیسری پارٹی کو شیئر کر دیتی ہیں اور اس کے متعلق صارفین ’عام طور پر بے خبر ہوتے ہیں۔