تحریک آزادی میں مردان کے سکھ تلوار خاندان کا نام غائب کیوں ہوا ؟

مردان سے تعلق رکھنے والے سکھ برادری کے دونوجوانوں نے تحریک آزادی کے دوران اپنے علاقہ کے خوانین اور نوابوں کے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور جرمنی کو تگنی کاناچ نچایا۔ تاریخ کی کتابوں میں آج بھی ان دو بھائیوں کے نام زندہ ہیں . سکھ باپ نے اپنے ایک بیٹے کو انگریزوں کے خلاف ایک ایسی جنگ کےلئے تیار کیاجس میں سامنے صرف موت تھی جبکہ دوسرے بیٹےنے دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی ہوشیاری سے انگریزوں اورجرمن کو الو بنایا۔

19ویں صدی کے آغاز میں پنجاب کی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والا تلوار خاندان مردان کے علاقہ غلہ ڈھیر منتقل ہوا جہاں اس نے پختون روایات کے مطابق زندگی بسرکرنے کوشش کی . وہ اپنے آپ کو سکھ سے زیادہ پشتون کہلواتے تھے،اس خاندان کے گرو دمسال نے 1920میں انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور باچا خان کی تحریک سرخ پوش کے خدائی خدمتگار کاحصہ بنے۔گرو دمسال کے دو نوں صاحبزادوں ہری کشن اور بھگت رام نے تحریک آزادی کے دوران الگ الگ طریقوں سےانگریز حکمرانوں کے دانت کٹھے کئے۔

1930میں سانحہ قصہ خوانی کے بعد جب خدائی خدمتگاروں نے فرنگیوں کے خلاف مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شرو ع کیے تو ہری کشن سمیت متعدد خدائی خدمت گار گرفتار کرلئے گئے۔ برطانوی راج جیل سے رہائی پر قیدیوں سے ایک حلف نامہ پر دستخط لیتا تھا کہ وہ مستقبل میں انگریزوں کےخلاف کسی بھی تحریک کاحصہ نہیں بنیں گے.

انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہری کشن نے بھی اس حلف نا مہ پر دستخط کردئیے۔ انکے والد گرو دمسال کو جب اپنے بیٹے کی اس بات کا پتہ چلا تو اسے بہت برا بھلا کہا۔ اب والد سمیت علاقہ کے رہنما ہری کشن کوطعنے دیتے تھے کہ انہوں نے دستخط کر کے انگریز کو سرکار تسلیم کر لیا ہے۔ گرو دمسال نے اس دوران جیل میں دیگرقیدیوں تک یہ بات پہنچائی کہ وہ حلف نامہ پردستخط نہ کریں کیوں یہ انگریزوں کی چال ہے۔ ہری کشن اپنی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرنے کےلئے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران انہوں نے پنجاب کی ”نوجوان بھارت سبھا“ کے ساتھ رابطے استوار کئے اور طے پایاکہ وہ گورنر پنجاب سر مونٹ مورینسی کو جان سے مار دینگے ۔

والد نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہری کشن اپنی بات پر اڑا رہا۔ گرو دمسال کو جب اپنے بیٹے کی استقامت کا پتہ چلا تو اس نے مردان کے علاقہ طورو میں اپنے ایک دوست سے پستول لیکر بیٹے کو دیا اور اس کی تربیت کا آغاز کر دیا کہ گولی کس طر ح چلانی ہے ،
اس دوران ہری کشن اکثر باچاخان کے بیٹے غنی خان کے یہ اشعار گنگناتا رہتا جن کا ترجمہ یوں ہے .

اگر میں غلام مر جاوں تو آکر میرے قبر پر تھوک دو
یا تو اس بے رنگ زمین کو جنت بنا دو نگا
یا پختونوں کے گلی کوچوں کو مکمل اجاڑ دونگا

23دسمبر 1930کو پنجاب یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران ہری کشن کو ہال تک جانے کا موقع ملا جہاں ا س نے تقریب کے اختتام پر پنجاب کے گورنر مونٹ مورنیسی پر فائرنگ کردی جسکے نتیجہ میں اسے دو گولیاں لگیں ،گورنر بچ گئے لیکن موقع پر موجود ایک پولیس انسپکٹر مارا گیا۔ہری کشن موقع پر پکڑا گیا اورتین ہفتوں کی مختصر عدالتی سماعت کے بعد ہری کشن کو سخت صعوبتیں دینے کے بعد پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

کتابیں جن میں بھگت رام اور ہری کشن کے کردار پر لکھا گیا ہے

اس وقت جیل میں تحریک آزادی کے رہنمابھگت سنگھ بھی قید تھے جن کو کچھ عرصہ بعد پھانسی دی گئی۔ گرو دمسال کے بیٹوں کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ ہری کشن کا دوسرا بھائی بھگت رام بھی خدائی خدمتگار کاحصہ بننے کے بعد نوجوان بھارت سبھا کارکن بن گیا۔بھگت رام تلوار اپنی کتاب ”دہ تلوارزآف پٹھان مین اینڈسبھاش چندر ازگرےٹاسکیپ“میں تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف لڑنے والے ہندو رہنماسبھاش چندر بوس کو اٹک سے لیکر کابل تک فرارکرانے میں مدد کی کیونکہ انگریزوں نے سبھاش چندر بوس کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کیا تھا ، لیکن اس سے قبل بھگت رام جو تھوڑی بہت انگریزی جانتاتھا،نے مردان کے علاقہ غلہ ڈھیر میں طورو کے نواب کے خلاف کسانوں کی تحریک کی داغ بیل ڈالی ۔

طوروکے نواب نے کھیتوں میں بیل چرانے پر ایک مقامی کسان کوچالیس روپے جرمانہ کیا۔ بھگت رام نے مقامی کسانوں کے ساتھ مل کر رات کو نواب آف طورو کے باغات اکھاڑ دئیے جس کے بعد نواب آف طورو نے بے عزتی سمجھ کر پورے گاوں کو جرمانہ کردیا۔

برطانوی راج عام لوگوں سے زیادہ خوانین کا تحفظ کر تا تھا۔اس لئے نوابوں کے خلاف بھگت رام کی اس تحریک نے جب جڑ پکڑ ی تو بھگت رام کو متعدد رہنماوں سمیت سنٹرل جیل پشاور میں قید کردیاگیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1938ءمیں اسوقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹرخان صاحب نے بھی بھگت رام سے مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن وہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ بھگت رام کا خیال تھا کہ اراضی کے اصلاحات سے متعلق وزیر اعلی ڈاکٹر خان صاحب نے جو وعدے کئے ہیں اسے پورا کرنا حکومت کیلئے ممکن نہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں مہاتما گاندھی کی سفارش پربھگت رام کو سنٹرل جیل پشاور سے رہا کیا گیا۔سبھاش چندربوس جنہیں تاریخ میں نیتاجی کے نام سے یاد کیاجاتا ہے جب ہندوستان سے اٹک کے راستے کابل فرار ہوئے تو سویت یونین جانے کیلئے انہوں نے دریائے آمو کے قریب روسیوں کے ساتھ مذاکرات کئے ، لیکن روسیوں نے انہیں اپنے ملک میں قیام کی اجازت تو نہیں دی لیکن انہیں بتایاگیاکہ نیتاجی سویت یونین کے ذریعے یورپ جا سکتے ہیں جہاں سے وہ جرمنی چلے گئے۔ بھگت رام ، سبھاش چندربوس کو جرمنی پہنچا کر واپس آئے اور روسیوں کی ملازمت اختیار کی۔ اس دوران جب جرمنی روسیوں کےخلاف دوسری جنگ عظیم کا محاذ کھول رہا تھا تو مردان سے تعلق رکھنے والے بھگت رام کی خدمات روسی حکومت نے برطا نوی راج کے حوالے کرد یں۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں بھگت رام بیک وقت برطانوی فوج، جاپانیوں، روسیوں اورجرمنی کامشترکہ جاسوس تھا۔

برطانوی صحافی مہربوس اپنی کتاب "سلور ۔داسپائی ہو فوولڈ دا نازیز ” میں لکھتا ہے کہ بھگت رام نے کافی عر صہ تک جرمن حکومت کو بے وقوف بنائے رکھا کہ وہ برطانیہ پر کابل کے راستے حملہ کر سکتے ہے اوردوسری جنگ عظیم کے آخرتک جرمنوں کو مکمل یقین تھاکہ بھگت رام
کابل میں انکا سب سے اہم جاسوس ہے تاہم اس کتاب کے متعلق بھگت رام نے جرمنوں کو کافی چونالگایا .

دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی جرمنی نے بھگت رام کو اپنا سب سے بڑا قومی اعزاز”آئیرن کراس“سے نوازا اور انہیں اسوقت کی 25لاکھ ڈالرکے برابررقم بطور انعام بھی دی،داسلور میں لکھا گیا ہے کہ بھگت رام اصل میں برطانوی فوج کےلئے جاسوسی کرتاتھااوروہ کابل کوجرمنی معلومات فراہم کرنے کےلئے ایک پلیٹ فارم استعمال کرتاتھااور ایک ڈبل ایجنٹ کے طور پر وہی معلوما ت وہ برطانوی فوج کوبھی دیتاتھا ۔

کابل اور جرمنی کے تعلقات اس وقت سب سے بہتر تھے اس لئے بھگت رام کابل کا استعمال کرتا تھا تاکہ جرمنو ں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا سکے ۔ صرف جرمنی ہی نہیں ، روس اور جاپان کو بھی بھگت رام نے بے وقوف بناتے ہوئے وہی معلومات فراہم کیں . ان میں سے ہر ملک یہ سمجھتا تھا کہ بھگت رام انکا اصل جاسوس ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب پاکستان آزاد ہوا تو بھگت رام واپس مردان آیا اور اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان منتقل ہو گیا ۔

تحریک آزادی کے متعلق کتابوں میں بڑے بڑے سورماوں کے نام تحریر کئے گئے ہیں لیکن ان میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والا تلوار برادارن کے نام وقت کے ساتھ دفن ہو گئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے