سردار عبدالقیوم خان کی برسی ابھی 10 جولائی کو گزری . ان کا شمار آزادکشمیر کے نمایاں ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ورکنگ کلاس پس منظر کا حامل ہوتے ہوئے بھی میدان سیاست میں اپنی ممتاز شناخت بنائی۔ سردار صاحب نے طویل سیاسی ریاضت کے دوران طاقت اور عقیدت کی اہمیت کا بھرپور ادراک کیا اور اپنے سیاسی سفر میں ان دوعناصر سے خوب استفادہ کیا۔ انہیں یہ گُر آتا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے چھوٹے سے حصے کا سیاست دان یا حکمران ہوتے ہوئے خود کو اسلام آباد میں مسلسل ریلیونٹ کیسے بنائے رکھنا ہے۔ان کی سیاسی زندگی ایسی ”حکمت عملیوں” سے بھری پڑی ہے. ان کی عوامی اور بند کمرے کی سیاست کی کچھ مثالیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور حسین گیلانی نے اپنی خود نوشت سوانح ”متاعَ زیست” میں رقم کی ہیں.
یہی وجہ ہے کہ طاقت کے بڑے اور حتمی سمجھے جانے والے فیصلہ ساز مراکز نے سردار صاحب کو نظر انداز کرنے کی غلطی کم ہی کی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کے بعض قومی سطح کے سیاسی تنازعات میں بھی سردار صاحب کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی جزوقتی خدمات لی گئیں۔ مشہور حیدر آباد سازش کیس ایک حوالہ ہے. ایسی مثال پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے کسی اور سیاست کار کی نہیں ملتی۔ مسئلہ کشمیر سردار عبدالقیوم خان کی سیاست کا محور تھا ۔ اس مسئلے کے ساتھ ایک خاص زاویے سے غیر متزلزل وابستگی نے انہیں آج تک نظریاتی طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔
بلاشبہ سردار صاحب کے نظریات اور طرزِ سیاست سے اختلاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ان کی زندگی میں بھی موجود رہی ہے۔ سردار صاحب نے کئی بار سیاسی مخالفین کے خلاف مقامی روایتی سیاست دانوں والی زبان بھی استعمال کی ، جو اخبارات کی فائلوں میں محفوظ ہے۔ لیکن مجموعی طور پر وہ اپنے منفرد اسٹائل میں سیاست کرتے رہے. میرا خیال ہے کہ انہوں نے برادری ازم کا کارڈ کھیلنے کی غلطی نہیں کی، اگر وہ ایسا کرتے تو شاید وہ ریاست کے اس حصے کی مختصر سی سیاسی تاریخ کا اہم حوالہ نہ بنتے. اب چند برس سے ان کی جماعت مسلم کانفرنس کی زمامِ قیادت ان کے صاحب زادے سردار عتیق احمد خان کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس جماعت کی مقبولیت ماضی کی نسبت بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ گوکہ سردار عتیق بھی ایک نفیس طبع آدمی ہیں لیکن زمینی حقیقتیں کچھ اس طرح بدل چکی ہیں کہ اب مسلم کانفرنس کا ماضی جیسا احیاء شاید ہی ممکن ہو سکے۔
مسلم کانفرنس کی کھوکھ سے ”آزادکشمیر” میں مسلم لیگ نواز کا بننا ایک بڑا واقعہ ہے۔ مسلم کانفرنس کے سیاسی حجم کے لیے تو یہ سانحہ ثابت ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں مسلم کانفرنس کے مستقبل قریب میں ایک بار پھر ماضی کی سی مقبولیت حاصل کر لینے کی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔ اربابِ بست وکشاد کو تحریک انصاف کی صورت میں نسبتاً بہتر متبادل میسر آ چکا ہے اور اس کے وابستگان نظریاتی اعتبار مسلم کانفرنس کی نسبت زیادہ سیال واقع ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ انہیں نئے عالمی حالات اور مقتضیات کے مطابق ڈھالے گئے ریاستی پیمانوں سے ہم آہنگ ہونے میں کوئی مشکل یا الجھن درپیش نہیں۔ مسلم کانفرنس کے پاوں میں بہرحال ایک نظریاتی بیڑی ہے جو اس کی شناخت کا اساسی عنصر ہے۔ اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش مسلم کانفرنس کے خاتمے کے مترادف ہوگی۔
سردار عبدالقیوم خان کی کچھ دستیاب آڈیوز اور ویڈیوز سننے اور دیکھنے کا مجھے موقع ملا ہے ۔ سردار عتیق احمد خان سے بھی کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے ۔ عتیق خان کئی اعتبار سے منفرد ہیں ۔ اپنے والد کی طرح خوش لباس اور خوش خوراک ہیں۔ مذہب اور تصوف میں بھی ان دلچسپی ہے۔ سوال سہنے کا ان میں حوصلہ ہے ۔ گفتگو میں شائستگی کا دامن کم ہی چھوڑتے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی! ۔ دستیاب سیاست میں اپنے والد کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے. سردار قیوم صاحب کی زندگی کے آخری برسوں میں اس جماعت میں بڑی حد تک داخلی انتشار پیدا ہو چکا تھا. بہت سے لوگ اس کی ذمہ داری عتیق خان پر ڈالتے ہیں.
سردار قیوم خان کی شخصیت میں تنوع زیادہ تھا ۔ وہ سیاست کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے میں بھی دلچسپی لیتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ کشمیریوں کو نظریاتی یکسوئی حاصل کرنی چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مسئلہ کشمیر سے متعلق کچھ کتابیں بھی لکھیں ۔ ایک ملاقات میں سردار عتیق احمد خان نے مجھے بتایا کہ ”سردار صاحب کا بڑا کارنامہ اپنے معروف نعرے(کشمیر بنے گا پاکستان ) کے ذریعے ریاستی عوام میں نظریاتی کنفیوژن ختم کرنا ہے”۔ سردار قیوم خان نے کچھ مذہبی کتابیں بھی لکھیں۔ تصوف سے انہیں خاص شغف تھا. حکومتی عہدوں پر ہوتے ہوئے بھی سٹیلائٹ ٹاون پنڈی میں واقع ایک گھر میں چلہ کشی کا وقت نکال لیا کرتے تھے.مذہبی علما سے بحث مباحثے کا بھی انہیں شوق تھا. اس بارے میں کئی دلچسپ واقعات واقفان حال سناتے ہیں.
سردار صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے اردگرد پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے کچھ لوگوں کو ضرور رکھتے تھے۔ وہ ایسی مصاحبت کی اہمیت جانتے تھے۔ پختہ قلم کے حامل لکھاری اور دانشور اشفاق ہاشمی کو بھی اُن کا کافی قُرب حاصل رہا۔ اشفاق ہاشمی خود بھی صاحب کتاب تھے اور زندگی کے آخری دنوں تک ریاستی اخبارات میں سیاسی تجزیہ کاری کرتے رہے۔ سردار صاحب نے ان کی صلاحیتوں سے بھی مقدور بھر فائدہ اٹھایا.
سردار قیوم خان صاحب کے زیر سایہ سیاست میں قدم رکھنے والے نوجوان اب مختلف سیاسی جماعتوں کے ادھیڑ عمر یا بزرگ زعماء بن چکے ہیں. پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات بھی انہی میں سے ہیں .لیکن سردار قیوم خان کے طرز سیاست کی جھلک ان کے ہاں نہیں دِکھتی مگر بہت کم. سردار صاحب کے سیاسی عقائد سے اختلاف کی بڑی گنجائش موجود ہے . اس وقت دلائل کی دنیا میں سوائے ان کے صاحبزادے عتیق احمد خان کے ان کا کوئی بھی جانشین نہیں جو ناقدین کا سامنا کر سکے. عتیق احمد کسی نہ کسی صورت اپنے والد کی نظریاتی شناخت کا علم تھامے ہوئے کارزار سیاست میں موجود ہیں. وقت کا دھارا البتہ بڑا منہ زور ہے، دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں متنازع خطے کے بارے میں پڑوسی طاقتوں کے بدلتے ہوئے فیصلوں کے سامنے سردار صاحب کا نظریہ اور نصب العین ٹھہر سکے گا یا پھر نئے عہد کی ضرورت کے تحت کسی جوہری ترمیم کو قبول کر لے گا.