جاگ اٹھا ہے سارا وطن، سو رہا ہے حمایت علی شاعر

کیس ففٹی ففٹی کا تھا بلکہ زیادہ امکان اس بات کا تھا کہ آج ناغہ ہو گا لیکن حمایت علی شاعر کے انتقال کی خبر کوئی معمولی خبر نہیں، اک عہد کے خاتمہ کا اعلان ہے۔ حمایت علی شاعر، شاعر، ادیب، نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر، فلم ساز اور بیحد نفیس، شفیق انسان تھے۔’’وہ ایک پتھر جو راستے میں پڑا ہوا ہےاسے محبت تراش لے تو یہی صنم ہےاسے عقیدت تراش لے تو یہی خدا ہے‘‘کیریئر کا آغاز تھا۔ فلم سٹوڈیوز اور ریڈیو پاکستان آمدورفت عام اور اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ حمایت بھائی کے ساتھ کہاں ملاقات ہوئی لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ اس تعلق میں گہرائی کے پیچھے اداکار محمد علی مرحوم اور علی سفیان آفاقی مرحوم کا کردار ناقابل فراموش تھا۔

علی مرحوم حمایت بھائی کا بیحد احترام کرتے کیونکہ حمایت علی شاعر محمد علی کے بڑے بھائی ارشاد علی کے بیحد قریبی دوست تھے اور علی صاحب کے ساتھ میرا اور میرے ماہنامہ ’’دھنک‘‘ کا خصوصی تعلق تھا۔ علی مرحوم مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کرتے اور حمایت بھائی ان کے لئے بڑے بھائیوں جیسے تھے تو اس حوالہ سے مجھے کچھ زیادہ ہی لفٹ مل گئی جس میں آفاقی صاحب کے ساتھ میری قربت بھی کام آئی جو حمایت صاحب کے دوست تھے۔

صبح کا وقت ہے لیکن مجھے وہ شامیں یاد آ رہی ہیں جب حمایت صاحب کے ساتھ لمبی لمبی ’’واکس‘‘ کیا کرتے۔ شعر، نثر، فلم….کوئی چوتھا موضوع یاد نہیں۔ حمایت صاحب کی گفتگو کا انداز مسحور کن تھا اور یہ عادت بہت عجیب کہ دوران گفتگو خود ہی کوئی سوال اٹھا کر اس کے جواب کی تلاش میں موضوع موضوع بھٹکتے پھرتے۔ چند سال پہلے کینیڈا میں ہمدم دیرینہ، ٹین ایج کے دوست، سابق صدر سٹوڈنٹس یونین پنجاب یونیورسٹی اور PTIکے بانیوں میں سے ایک حفیظ خان کے گھر حمایت بھائی کے صاحب زادہ سے ملاقات ہوئی، تب تک وہ کینیڈا شفٹ نہیں ہوئے تھے اور اب کینیڈا سے کہیں آگے کوچ کر گئے ہیں۔

میں موسم سرما کی آمد سے پہلے کینیڈا جانے کا سوچ رہا تھا اور بہت خوش تھا کہ حمایت بھائی سے بھی ملوں گا لیکن اب؟ خوبصورت گلوکار سلیم رضا کے بعد ہمارا ایک نایاب شاعر بھی کینیڈین مٹی کے سپرد ہوا۔زیر زمیں بھی روشنی ہومٹی میں چراغ رکھ دیا ہےکبھی کوئی حساب تو لگائے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کتنے پاکستانی، پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے، خصوصاً رزق کی تلاش میں اور پھر اجنبی زمینوں کا رزق ہو گئے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد میں مسلسل بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہو اور ہمیں ہوش ہی نہ ہو۔کیا یہاں وسائل کی کمی ہے؟

یا وسائل کی منصفانہ تقسیم کا قحط ہے جس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، تو ایسا نہیں کہ اس دھرتی پر ہر کسی کی NEEDکے لئے بہت کچھ ہے لیکن شاید یہ پورا ملک بھی چند لوگوں کی GREEDکے لئے بہت کم ہے جس کا ثبوت اور اک معمولی سی جھلک یہ کہ….دس سال کی مدت میں یہ نواز، شہباز اور زرداری صرف ’’سیکیوریٹی‘‘ کی مد میں 16ارب کھا گئے۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ نواز کی سیکیوریٹی پر 431، شہباز عرف خادم اعلیٰ پر 872کروڑ خرچ ہوئے۔

زرداری کے پاس 2016میں 246سرکاری گاڑیاں تھیں، گیلانی کے 5کیمپ آفسز تھے۔ دو نمبر خادم اعلیٰ نے عوام کا خون اور ہڈیوں کا گودا کشید کر کے اپنے بچوں، داماد اور بیگموں کے نام پر سیکیوریٹی سکواڈز بنائے، نواز نا اہل ہوا تو رائے ونڈ کو کیمپ آفس ڈیکلیئر کر دیا۔ صرف باڑ پر 25کروڑ روپے غارت کر دیئے گئے۔ نواز کے دورئہ امریکہ پر ساڑھے 4لاکھ ڈالر خرچ ہوئے اور اس کھرب پتی کا علاج کنگلی قوم کو سوا تین لاکھ پائونڈ میں پڑا۔میں یہ اعداد و شمار اخبار دیکھ دیکھ کر لکھ رہا ہوں اور خدا کی قسم مجھے یقین نہیں آ رہا کہ کوئی اتنا بے رحم، سفاک، لالچی اور خود غرض بھی ہو سکتا ہے کہ کروڑوں ہم وطن خط غربت پر رینگ رہے ہوں، بچہ بچہ مقروض ہو، لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہ ملے اور یہ شرفاء؟ اس سے تو بہتر تھا وحشی تاتاری ٹیک اوور کر لیتے ….خادم اعلیٰ ہلاکو خان ہوتا۔

حکومت نے عیاشیوں پر خرچ ہونے والی یہ رقمیں واپس لینے کی بڑھک ماری ہے تو حضور! ذرا جلدی ورنہ لوگ خود کش جیکٹس پہن کر انہیں ڈھونڈنے لگیں گے۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کی وجہ سے حمایت علی شاعر جیسوں کی اولادوں کو تلاش رزق میں ملک چھوڑنا پڑتا ہے اور پھر انہیں اولادوں کے پاس جا کر وہاں علاج کرانا اور دفن ہونا پڑتا ہے۔ یہ وہی حمایت علی شاعر ہے جس نے لکھا تھا۔’’ساتھیو! مجاہدو!جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘اس کی اولاد کو وطن چھوڑ کر دیار غیر روزی ڈھونڈنی پڑی۔شاعر کو پیچھے جانا پڑاوہاں دفن ہونا پڑا’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘لیکن خود کینیڈا کی مٹی میں سو رہا ہے ہمارا حمایت علی شاعر ۔کیا یہ وطن اور اہل وطن واقعی کبھی جاگیں گے؟جس دن یہ جاگ گئے، کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گہری نیند سو جائیں گے اور سویا ہوا مقدر بھی جاگ اٹھے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے