اسلام، زنا اور رجم

میں کوئی مفتی یا صاحب علم نہیں۔ اس لیے اوّل تو میری بات کو بہت سنجیدہ نہ لیجئے گا۔ دوسرا، یہ ایک خیال ہے سو غلط بھی ہو سکتا ہے سو آئیے زرا بات کریں۔

اسلام نے زنا کو بہت برا خیال کیا اور اسکو کبیرہ گناہوں میں رکھا۔ مگر اسلام نے دنیاوی سزا صرف ان گناہوں کی رکھی ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنیں۔ جیسے جھوٹ(قذف کے علاوہ)، غیر محرم کو غور سے تکنا، روزہ نہ رکھنا،غیبت، نماز نہ پڑھنا گناہ تو ہیں مگر ان پر حد نہیں لگتی۔ ان کا معاملہ بندے اور رب کا باہمی معاہدہ ہے۔ حد صرف ان گناہوں پر ہے جو معاشرے میں فساد کریں۔

سیکس کرنا انسان کی جبلت ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو انسان کے خمیر میں رکھا گیا ہے۔ اسلام نے سیکس کو آسان کیا زیادہ شادیوں، لونڈیوں کی اجازت سے تاکہ زنا کا راستہ رکے۔ اور پھر بھی اگر کوئی زنا کرے تو قرآن سو کوڑے مارنے کا حکم دیتا ہے۔

ایک سزا رجم بھی ہے جو اب بھی کہیں کہیں دی جاتی ہے اسلامی سزا کہ کر جیسے کچھ دن پہلے افغانستان میں۔ بغیر اس بحث میں جائے کہ زنا کی تعریف کیا ہے، اسکی سزا کو اس کے قانون شہادت کو اسقدر مشکل کیوں بنایا گیا، رجم واقعی اسلامی سزا ہے یا نہیں یا بندروں کی روایت کیا ہے؛ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آخر انسان کی جبلت میں موجود ایک عمل پر اسقدر سخت سزا کیوں جو قتل جیسے جرم کی بھی نہیں۔ تلوار سے مارا تو ایک ھلے میں مرتا ہے مگر پتھروں سے مارا تو ہر ایک پتھر کے ساتھ مرتا ہے۔ اسلام جو آسانی کا دین ہے اسقدر سسکتی موت کیوں دے رہا ہے۔

جو جواب مجھے سوجھا ہے وہ آپ سے بھی شیئر کر لیتا ہوں۔ ایک تو اسلام نے زنا کو ایک شدید گناہ اس لیے مانا ہے کہ اس سے نسب تہس نہس ہو جاتا ہے۔ اسلام کا قانون وراثت نسب سے وابستہ ہے۔

اسی لیے اس میں متنبہ بھی وراثتی حصہ میں کمتر ہے۔ اب اگر جائداد نسب سے وابستہ ہے تو اس کا تقدس بھی ضروری ہے۔ اسی لیے وہ زنا جہاں نسب بگڑتا ہے(شادی شدہ کا گناہ) اسکی سزا زیادہ سخت رکھی گئی۔ سو اس گناہ کو فساد فی العرض کے درجے میں شمار کر کے اسکی سزا دی گئی۔ اگرچہ روایات میں تضاد ہے لیکن اگر یہ سزا ملی بھی تو انھیں جو اس فساد کے مرتکب ہوے۔ تو رجم سزا پھر زنا کی نہیں فساد فی الارض کی ہے۔

میرا یہ بھی ایک ذاتی خیال ہے کہ قرآن نے کوڑوں کو basic اور دائمی سزا بنا دیا ہے۔ رجم یا کچھ اور بھی زمانی سزا تھی۔ جو فساد کے مجرم کی اس وقت اور علاقے کی روایات کے مطابق تھی۔ یہ رہتی دنیا تک کا قانون رکھنا ہوتا تو قرآن اس کو صریحا بیان کرتا۔ سو اگر رجم دائمی سزا نہ تھی تو وقت اور روایات کے بدلنے سے ختم ہو گئی۔ اب وقت کے بدلاؤ کے ساتھ کوئی بھی ایسی سزا جو اس معاشرتی بگاڑ کو روکنے کی سکت رکھتی ہو، دی جانی چاہیے۔ رجم پر اصرار کرنا مناسب نہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ رجم کی سزا آج کے وقت کے مطابق بہت متشدد اور لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو افغان بچی سے متعلق پوسٹوں پر لوگوں کے تبصرے پڑھ لیجئے۔ سو لوگوں کو دین کی طرف راغب کیجئے متنفر نہیں۔ صاحبان علم کو اس معاملے پر اجتہاد ضرور کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے