میں نے لکھنا کیسے سیکھا(قسط اول)

لکھنے پڑھنے کا بچپن سے شوق اور دل اس کی طرف مائل تھا،لیکن لکھنا نہیں آتا تھا،کوشش کرتا پھر رک جاتا اور ٹھہرجاتا۔

بس یہ ایک ارمان،حسرت،آرزو،تمنا تھی،کوئی سکھانے والا بھی نہیں،نہ کوئی خاندان میں رائٹر جس کے پاس جاتا اور درخواست اور منت سماجت کرتا مجھے لکھنا سکھائیے۔

بس مطالعے کا شوق تھا،کتابیں،رسائل وجرائد،اخبارات پڑھتا رہتا تھا،اس سے مزید شوق بڑھتا رہتا،کاش مجھے بھی تحریر کا سلیقہ آجائے۔

قلم ہاتھ میں لیا دو تین سطریں لکھ دیں پھر چھوڑ دیا،کوئی غلطی درست کرنے والا اور حوصلہ اور داد دینے والا نہیں، اور رہمنائی کرنے والوں کی تلاش میں مارا مارا پھر رہاہوں۔

آخر میں یہ صورت سوجھی کہ ہم چند طلبہ ساتھی مل کر مشق کریں گے،اور کسی استاد محترم کو رہبر بنائیں گے،جس سے وقتا فوقتا ہدایات اور رہنمائی لیتے رہیں گے۔

پلان تشکیل دے دیا گیا اورساتھی منتخب کردیئے گئے۔

جب یہ ترتیب بنائی جارہی تھی سال کا اختتام تھا،تو طے یہ ہوا تھا نئے سال میں نئے جذبے،ولولے اور جوش وعزم کیساتھ اس نیک کام کو شروع کریں گے۔

ادھر سے دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ پرانے شوق کی تسکین وتکمیل ہونے جارہی ہے۔

ہم پر امید تھے،مقاصد نیک تھے، جذبے جوان تھے،ہمتیں بلند تھیں،بس اب صرف چھٹیاں ختم ہونے کا انتظار تھا کہ جلد ازجلد ہم اپنے کام کو شروع کرسکیں۔

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے چھٹیاں گذرگئیں، نئے سال کے اسباق شروع ہوگئے۔

لیکن پھر بیدار جذبے سوگئے اور ماند پڑگئے۔

آواز آئی بھائی! یہ فن تحریر آپ کے بس کام نہیں،خاموش ہوجائیں اور کسی اور کام میں مہارت حاصل کیجیے۔
وقت خاموشی کیساتھ گذرتا رہا ہم پرانے جذبوں کو جگاتے رہے لیکن جواب ندارد۔

اب عید الاضحی کی تعطیلات کا بھی اعلان ہوا چاہتا ہے،لیکن کوئی حرکت اور عملی اقدام نظر نہیں آرہا بلکہ ساتھی بھی سست پڑگئے اور کسی اور لگن میں لگ گئے۔

باہر سے ہم بھی شکست کھاچکے تھے لیکن میرے اندر سے مسلسل آواز آتی رہتی تھی لکھنا ضرور سیکھنا ہے۔
بقرہ عید کے بعد مدرسہ تشریف لائے تو چھوٹے بھائی نے کہا

میں نے جامعہ الرشید میں صحافت کورس میں داخلہ لیا ہے۔

آپ نے ؟؟

ساتھ میں یہ کہہ کر بجلی گرادی کہ اب داخلے بھی بند ہوچکے ہیں۔

کیونکہ میں مدرسہ کجھ تاخیر سے پہنچا تھا،میں نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا اتنا سنہری موقعہ ہاتھ سے جارہا ہے۔
اگر یہ موقعہ گنوادیا اور ضائع کردیا تو شاید پھر حوصلے پست اور عزائم ہمیشہ کے لیے شکست کھا جائیں۔

اس لیے میں سوچا رابطہ کرنے کی کوشش کرتاہوں،ہوسکتا کہیں سے کوئی گنجائش نکل آئے۔

جمعرات بعد العشاء امید باندھ کر اور دعا کرتے ہوئے کال ملائی،

حضرت! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ!

صحافت کورس میں شرکت کا خواہشمند ہوں،

جواب ملا تو ہم نے اپنا مدعا بیان کیا،ادھر سے اطمینان بخش جواب ملا۔

ہم نے خدا کا شکر ادا اور رب کے حضور التجا کی میری مدد فرمادیجئے اور اپنے رضا کیلئے یہ فن سیکھنے کی توفیق عطا فرمائیے۔

یہ ہمارے درجہ خامسہ 2015 کی بات ہے۔

پھر آگے سفر کتنا کٹھن اور مشکل تھا،ہم نے کیا سیکھا اور کس طرح سیکھا کن سے سیکھا۔

پھر اس کا کوئی فائدہ بھی ہوا کہ نہیں؟

ان سوالات کے جوابات اگلی نشست میں اگر دوستوں نے خواہش کی تو ورنہ رہنے دیتے ہیں۔(جب دل نے چاہا)
بس وہاں سے سفر شروع ہوا جس کے بدولت یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے کے قابل ہوئے۔

لیکن آج بھی میں کسی استاد اور رہنما کی تلاش میں رہتاہوں جو مجھے سکھائے اور رہنمائی کرے۔

(جاری ہے …)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے