دوفریق۔۔۔!

وطنِ عزیز کے قیام کےکچھ عرصہ بعد ہی معاملات ایسے ہوئے کہ جن کے بعد عوام کو اقتدار کی کشمکش میں محض ایک نمائشی کھلاڑی کا کردار سونپ دیاگیا۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کی حیثیت ایسے مرکزی کھلاڑی کی ہوتی ہے جس کے نہ ہونے کے سبب پورا کھیل بے وقعت ہوکررہ جاتا ہے۔اداروں کی مسلسل سیاسی مداخلت نے ملک کی ساکھ کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل کے سبب عوام میں پیدا ہونے والے سیاسی شعور کی راہیں بھی مسدود کردیں۔ ان قوتوں کو ایک ایسا ہجوم چاہیے تھا جو ایک غلام کی حیثیت سے ذرائع ابلاغ و دیگرحربوں سے محض رجحان سازی کےعمل سے متاثر ہوکر اپنے کردارو نمائندوں کاتعین کرے۔ اسے اپنے حقوق وفرائض کی خبرہو نہ ہی سیاسی عمل میں اپنی اہمیت کا اندازہ۔ ایسے ہجوم کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا آسان ہوتا ہے جو اپنے مقام و حیثیت سے آگاہ نہ ہو۔

طویل آمریت کے بعد 70 کی دہائی کے اوائل میں ہی ایک بار ایسا ہوا کہ قوم کو بھرپور سیاسی مشق کاموقع ملا اورانہیں ایک جمہوری حکمران چننے کا شرف حاصل ہوا۔ بعد ازاں پھر آمریت کا ایک تاریک دور مقدر ٹھہرا۔ عوام کے سیاسی کردارکو پھر سے محدود کر کے بادشاہ گری کا پیشہ عسکری اداروں کے اجداد وآل نے اپنا لیا۔یہاں سے عوام کے کردار کو مضبوط کرنے اور اس کردار کواہم بنانے کے لیے کچھ آوازیں بلند ہوئیں تو وہ آوازیں بند کر دی گئیں،اخبارات کےآدھے صفحات ریاستی جبر کانشانہ بنے اور جو قلم "حرفِ غلط”لکھتا تو توڑ دیا گیا۔تاریک دور کے بعد کٹھ پتلیوں کا زمانہ آیا پھر جب وہی لوگ خود کو اس چنگل سے چھڑانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتے تو اقتدار سے ہاتھ دھوبیٹھتے ۔ایک فریق جاتاتو دوسرا گود لے لیاجاتا اور یہ کام تب تک چلتارہاجب کہ ایک تیسرا فریق ہاتھ نہ آگیا۔

اس کو پال پوس کر میدان میں اتارا گیااور پرانی کٹھ پتلیوں سے ان کے "جرائم ” کاحساب مانگا جانے لگا۔
اس دوران عوم کو ایک بارپھر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ان کا وجود بے وقعت بنا دیا گیا ہے اور انہیں اپنے مقام وحیثیت کے حصول کے لیے کھڑاہونا ہو گا۔ ایک سال قبل ہونے والے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کا بنیادی نعرہ یہی تھا۔ انتخابات کے بعد سے اب تک کی صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ وہ جماعتیں دھیرے دھیرے اس موقف کوآگے بڑھانے کی کوششیں کررہی ہیں۔ ان کے مقاصد اس نعرے کی آڑ میں کچھ بھی ہوں مگر یہ بات طے ہے کہ یہ کام وقت کی ضرورت ہے کہ عوام اپنے سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی حیثیت واہمیت منوائیں ۔ جمہوری ملک میں پسِ پردہ تاش کے پتے کھیلنے والوں کی جگہ نھیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو عوام کو جو نمائشی رائے دہی کا حق حاصل ہے وہ بھی چھین لیا جائے گا۔

اس وقت دو فریق منظر پر ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں گردش کررہے ہیں ۔ایک فریق کٹھ پتلی بننے پر شاداں وفرحاں ہے اور دلیل ان کے پاس یہ ہے کہ جو اس بات پر خائف ہیں وہ خود کٹھ پتلی بنے رہے ہیں ۔دوسرا فریق وہ ہے جو عوام کو انتقالِ اقتدار میں اہمیت دینے کا حق دار سمجھتے ہوئے انہیں اس اہل بنانا چاہتا ہے کہ وہ شعوری طور پراپنے حکمرانوں ونمائندوں کاانتخاب کرسکیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کون سا فریق کس سطح پر کھڑاہے اورہمیں کس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ دیکھناچاہیےکہ کون ہے جوآئندہ دنوں میں ہمارے درد کا درماں بن سکتا ہے اور کون ہے جو سیاسی وجمہوری حقوق غصب کرنے والوں کاساتھ دیناچاہتاہے۔

اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ عوام کو ذہنی طور پرمخصوص رجحان سازی کے ذریعے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جارہاہے ۔ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ملک کا مسئلہ بدعنوانی ہے لیکن اصل مسئلہ جبر وطاقت کے ذریعے اقتدار واختیار پر قبضہ ہے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہی لوگ عوام کے مفادات کا تحفظ کریں گے جو عوام کے اعتماد کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کریں گے ۔ ایسے لوگ کبھی بھی عوامی مفاد کاتحفظ نھیں کریں گے جو عوام کے علاوہ کسی دوسرے کے معتمد ِ خاص بن کر اقتدار حاصل کریں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اپنے عمومی مفاد کے لیے طاقت کا منبع ومرکز اپنے اختیار میں لیں ۔دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ عوام کو اس فریق کا ساتھ دیناچا ہیے جو انتقال ِ اقتدار میں عوام کے حق کو زیادہ اہم جانتا ہے اور اداروں کے آئینی کردار کی بات کرتے ہوئے آئین کی بالادستی کاخواہش مند ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے