ترکی میں گزرے یادگارایام کی حسیں یادیں(چوتھی قسط)

23 جون کو ہم لوگ قونیہ سے بذریعہ بس” کپا دوکیہ “ آئے جہاں کے لئے بھی رہائش پہلے سے ہی ریزرو تھی- سامان غار نما رہائش گاہ میں رکھا اور 300 لیرا پر ایک آرام دہ لینڈ کروزر لے کر یہاں کی عجوبہ روز گار زیر زمین بستی کو دیکھنے چلے گئے-یہ پوری بستی ہی عجوبہ روز گار ہے ، جہاں فلک پوش پہا ڑوں میں غاریں بنی ہیں، جن میں مقامی لوگ پہلی جنگ عظیم تک رہتے تھے، لیکن اب یہ جگہ روزانہ ہزاروں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جانے سے ان غاروں سے متصل لوگوں نے رہائشی اور کمرشل بلڈنگ بنالی ہیں ، جن کے دو تین کمرے ان غاروں کے اندر ہی ہیں-

زیر زمین بستی دیکھنے سے پہلے چند منٹ کے لئے “وادئ محبت “۔ Love valley اور “ وادئ کبوتر” “۔pigeon valley “۔ دیکھنے جایا گیا -“ وادئ محبت کی فقط یہ فرضی داستان ہے کہ اس کے ایک آتش فشاں پہاڑ سے گرم ہوا اور مخالف سمت کے برف پوش پہاڑ سے ٹھنڈی ہوا اس جگہ گلے ملتی ہے، یعنی یہاں love کرتی ہیں-

“وادئ کبوتر” کی داستان یہ ہے کہ یہ ایک ویران جگہ ہے جہاں فلک پوش پہاڑوں کے اندر غاروں میں غول در غول کبوتر رہتے ہیں – اس جگہ کو متبرک سمجھا جاتا جہاں چند درختوں کے اوپر فینسی دھاگے باندھ کر مرادیں مانگی جاتی ہیں اور جب مراد پوری ہوتی ہے تو لوگ اس دھاگے کو کھولنے آتے ہیں – دونوں جگہوں پر نو بیاہے جوڑے لباس عروسی میں ہی حاضری بھی دیتے ہیں – اس دن بھی ایک جوڑا آیا تھا جس نے پاکستان کا سُن کر ہمارے ساتھ تصویریں بنائیں –


ہمارے ملک میں بھی ایسے رواج ہیں کہ شادی ہونے، بچہ ہونے یا کسی اور حاجت کے پورا ہونے کے لیے کسی دربار پر منت مانی جاتی ہے، گٹھ باندھی جاتی ہے، جب مراد پوری ہوتی ہے تو گٹھ کھولنے جاتے ہیں- چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں- کمزور عقیدے کے لوگ ہر جگہ یہی کرتے ہیں جو بالآخر مذہبی رسم بن جاتی ہے اور پھراس کو پاٹنے والے واجب التعزیر قرار پاتے ہیں –

‎” زیر زمین شہر” Underground city حیران کن دریافت ہے۔ پتہ چلا کہ اس بستی کا تذکرہ چوتھی صدی قبل مسیح کی کسی کتاب میں بھی ہے ،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنی پرانی بستی ہوگی- یہ آٹھ منزلہ بستی سیاحوں کے لئے کھول دی گئی ہے اور باقی پہ ابھی کام جاری ہے- میں بمشکل تیسری منزل تک جا سکا کیونکہ گزرگاہ تنگ اور چھت بہت پست تھی جہاں جھک کے جانا پڑتا ہے ، میں کمردرد کی وجہ سے جھکنے کی حالت میں نہیں تھا، الحمدُ للّٰہ ، اللہ نے یوں بھی زندگی بھر جھکنے سے بچا رکھا ، اس کا یہ احسان ہے-

کمرے چھوٹے، بڑے اور بہت بڑے بھی ہیں -ان میں روشنی اور ہوا کا عجیب و غریب نظام ہے، آدمی دیکھ کے دنگ اور انسانی فنی اور تیکنیکی ذہن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا -گائیڈ نے بتایا کہ اس بستی میں پانی کے حوض، بیت الخلا، غلہ سٹاک کرنے اور کھانے پینے کی چیزوں کو محفوظ کرنے، قبرستان، کھیل کے میدان اور دشمنوں سے بچنے کے لیے اندر داخلہ کے راستہ کو پتھروں کے پُڑوں سے بند کرنے کا نظام تھا- اس کے مطابق ماہرین کا اندازہ ہے اس وقت تک دریافت بستی میں دو ہزار لوگوں کے رہنے کا ہر لحاظ سے معقول بندو بست تھا- ابھی کام جاری ہے –

ہزاروں لوگ روزانہ اس کو دیکھنے آتے ہیں – صرف اس ایک سائٹ کو دیکھنے کے لئے فی کس 35 لیرا کا ٹکٹ تھا جو پاکستانی کرنسی کے مطابق ایک ہزار روپے کے برابر ہے- اسی طرح باقی مقامات کو دیکھنے کے لئے بھی ٹکٹ ہیں 200 سے ت300 لیرا تک ہیں – حکومت ترکی سالانہ اربوں ڈالر ٹورازم سے کماتی ہے -مقامی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں سے لوگوں کو روز گار اور حکومت کو بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس ملتا ہے، جس کا موقع پر سہولتوں اور عمدہ نظم و نسق سے مظاہرہ بھی ہوتا ہے – ہماری لیڈرشپ اور قومی ادارے اگر دیانت دار ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ایسے نہ بن سکیں- ہمارے ہاں گندھارا ، ھڑپہ، بدھ، ہندو وغیرہ تہذیب کے وسیع ٹورسٹ سپاٹ ہیں۔

سوشل میڈیا میں ایک رپورٹ میری نظروں سے گزری جس کے مطابق سکردو کے گاؤں شگری یلاں میں سنگ سنگ کاژے نام کی ٹنل بیان کی جاتی ہے جو لگ بھک 300 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے، اسے دیوتاؤں کی دنیا بھی کہا جاتا ہے. زمانۂ قدیم میں لوگ اس غار سے سفر کرتے ہوئے کھچول یعنی کشمیر جاتے تھے – دوران سفر روشنی کا بندوبست تھا- یہ بات سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے –

اس غار کے لاتعداد چیمبرز آپس میں جڑے ہوئے بیان کئے جاتے ہیں ، جس کی بدولت ہر جگہ ہوا کی روانی اور اندر راستوں کا ایک جنکشن بھی بیان کیا جاتا ہے- ان میں سے ایک راستہ کشمیر کو جاتا تھا- باقی ممکن ہے وسط ایشیا، چین وغیرہ جاتے ہوں – راستوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے کسی زمانے میں یہ راستہ بند ہوا ہے ، بند ہونے کی کیا وجہ تھی، اس بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے لیکن غار اب بھی عظیم تاریخ لیے اپنی جگہ پر موجود ہے ، یہ غار شگری یلان کے بوردو نامی گاؤں کے ایک پہاڑ پر واقع ہے، اس کو explore کرنے کی ضرورت ہے-

مقبوضہ کشمیر کی وادئ لولاب کے مچھل ایریا میں بھی ایک ایسی ہی گہری غار میں نے خود دیکھی ہے- ممکن ہے کہ مچھل اور اسکردو اس ٹنل کے ذریعہ ملے ہوں – ہماری دشمنیاں ، جہالت پر مبنی قدامت پسندی اور عدم برداشت ہمیں تنہائی کی طرف دھکیل رہی ہے- اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے – چترال ، آزاد کشمیر میں تتہ پانی کے مقام پر گرم چشمے پائے جاتے ہیں جن کو ٹورسٹس کے لئے Develop کیا جاسکتا ہے –

 

‎24 جون کی صبح چار بچے لوگ بیلون Balloon Rising (غباروں کو چڑھانے) کا نظارہ دیکھنے نکل گئے- ہماری خواہش تھی کہ چھوٹے بچوں کو بیلون پر بٹھائیں لیکن اکیلا بٹھانے کی اجازت بھی نہیں تھی اور اس پر سب کا اتفاق بھی نہیں ہوا- سب کا بیٹھنا ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ فی کس ٹکٹ 200 یورو تھا اور سات لوگوں کا 1400 یورو بنتے تھے جو پاکستانی ڈھائی لاکھ روپے کے برابر رقم بنتی تھی- اتنی رقم اگر ہوتی بھی تو اس پر ضائع کرنا حماقت تھی جس میں خطرہ بھی موجود تھا –

ایک غبارے میں 15 لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور اور یہ ایک گھنٹے کی فلائیٹ ہے- سورج کے چڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو اتارا جاتا ہے کیونکہ اندر سے گیس کی حدت اور باہر سے سورج کی تپش خطرے کا باعث ہوتی ہے، اسی لئے صبح چار بجے چڑھائے جاتے ہیں- لیکن نظارہ کمال کا ہوتا ہے – فضا ہر طرف رنگ برنگے غباروں سے بھری نظر آتی ہے-

‎بچے لوگ چھ بجے واپس آکر دوبارہ سو گئے – ہوٹل کی جانب سے ناشتہ کے اوقات کے اندر 9 بجے جاگ کر ناشتہ کیا اور سامان سمیٹ کر 10 بجے انقرہ جانے کے لئے بس سٹیشن کے لئے قونیہ روانہ ہو گئے جہاں سے چار بجے ٹرین پر انقرہ کے لئے نکلنا تھا- سارے سفر وقت پر شروع ہوئے اور مقررہ وقت پر اپنے سٹیشن پر پہنچ گئے- وہاں کی بس کا وقت اور صفائی ، ہماری ائیر سروس اور اور ائیر پورٹ سے کہیں زیادہ قابل رشک ہے – ٹرین کے سفر میں سیکیورٹی ویسی ہی ہے جیسے ائیر سروس میں ہوتی ہے -غیر ملکی پاسپورٹ اور ملکی لوگ قومی شناختی دستاویز کے بغیر سفر نہیں کر سکتے-

ہم لوگ شام چھ بجے انقرہ اور پہلے سے ریزو فلیٹ میں سات بجے پہنچ گئے- دو کمروں، ڈرائنگ روم، کچن ، ایک واش روم اور ٹیرس کا کرایہ فی یوم 220 لیرا تھا- کئی دنوں کے بے ذوق وشوق اور مرچ مصالحہ سے محروم ، سوکھے اور خشک کھانوں کے بجائے گھر جیسا کھانا پکا کے کھانے سے جان میں جان اور روح میں توانائی دوڑ پڑی – الحمد للّٰہ – فلیٹ میں ہر طرح کی سہولت میسر تھی لیکن ایک واش روم صرف فائبر کا زیادہ استعمال کرنے والوں کے لیے ہی مناسب ہے وگرنہ ایک آدھ گھنٹہ اس کے خالی ہونے میں ہی گزر جاتا ہے-

(جاری ہے . . . .)

اس دلچسپ سفرنامے کی تیسری قسط  یہاں  پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے