عرفان صدیقی کو مبارک ہو!

مجھے عرفان صدیقی کی گرفتاری پر از حد افسوس ہے لیکن یہ افسوس نہ تو اس بات پر ہے کہ وہ ایک استاد تھے اور نہ ہی اس بات پر کہ وہ ایک دانشور اور کالم نگار تھے۔ ظاہر ہے قانون کی نظر میں یہ پیشے کسی رعایت کے یا خصوصی مراعات کے حق دار نہیں ہیں۔ ویسے بھی اس ملک میں استاد کو ہتھکڑی لگنا نہ تو کوئی اچنبھے کی بات ہے اور نہ حیرانی کی۔ زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر خواجہ علقمہ کو ہتھکڑی لگی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑی لگی اور سرگودھا یونیورسٹی کے نہایت ہی نجیب وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کو نہ صر ف یہ کہ ہتھکڑی لگی بلکہ وہ گزشتہ نو ماہ سے زائد عرصہ سے جیل میں ہیں۔ جرم کیا ہو تو سزا میں کسی پیشے، عہدے یا سماجی مرتبے کو سنگ راہ نہیں بننا چاہئے۔ لیکن احترام آدمیت ایک بالکل علیحدہ چیز ہے۔ کسی نے عرفان صدیقی کی گرفتاری پر اشفاق احمد صاحب کی اٹلی میں ٹریفک کی خلاف ورزی پر عدالت میں حاضری کا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح جج نے یہ سنتے ہی کہ ایک استاد بطور ملزم ان کی عدالت میں حاضر ہے با آواز بلند ”ٹیچر ان دی کورٹ، ٹیچر ان دی کورٹ‘‘ کی صدا لگائی تھی۔ احتراماً خود کھڑا ہوا۔ اشفاق صاحب کو کرسی پیش کی۔ مگر لکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جج نے اشفاق صاحب کو سارے احترام اور ادب کے باوجود جرمانہ بہر حال سنا دیا تھا۔ میرا مؤقف بھی یہی ہے کہ ملزم کو اس کی سماجی حیثیت، مرتبے، پیشے اور عہدے سے بالاتر ہو کر سزا ضرور ملنی چاہئے۔ لیکن دو شرائط کے ساتھ۔ پہلی یہ کہ اس کا احترام ضرور کیا جائے اور دوسری یہ کہ اس نے جرم بھی کیا ہو۔ عرفان صدیقی کے معاملے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ ان کو قانون بغیر کسی رعایت کے سزا سنائے مگر اس جرم میں جو انہوں نے کیا ہو۔ مثلاً انہیں اس جرم میں سزا دی جائے کہ وہ نواز شریف کی تقاریر لکھتے تھے‘ وہ نواز شریف حکومت میں وزیر اعظم کے خصوصی مشیر تھے‘ مشیر بننے سے پہلے نواز شریف کی مدح میں کالم لکھا کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ وہ نواز شریف کو جیل میں ملنے جاتے ہیں اور اب بھی ان کے متوالے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر میں ایسے کسی جرم کے ارتکاب کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔

عرفان صدیقی کی گرفتاری سے مجھے تینتیس چونتیس سال پرانا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ میں یونیورسٹی میں تھا۔ ایک صبح جنرل صاحب نے طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی۔ متوقع احتجاج سے نمٹنے کیلئے یونیورسٹی کے ایک دو سرگرم طلبہ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ بد قسمتی سے میں ان دو تین طلبہ میں شامل تھا۔ رات گئے مجھے گھر سے گرفتار کر کے تھانہ صدر میں بند کر دیا گیا۔ ظاہر ہے جرم تو ابھی کوئی سرزد ہوا ہی نہیں تھا لہٰذا میری گرفتاری نہ ڈالی گئی۔ اگلے روز گورنمنٹ ایمرسن کالج کے طلبہ نے جلوس نکالا اور پولیس پر پتھرائو وغیرہ کرنے کے علاوہ کالج کے دروازے کے بالمقابل ڈاکٹر خاور علی شاہ کی بھینسوں کی ”کھرلیوں‘‘ کو آگ لگا دی۔ اس سارے واقعے پر ایف آئی آر درج ہوئی اور مجھے اس ہنگامہ آرائی میں نامزد کر کے گرفتاری ڈال دی گئی۔ دوسرے دن ابا جی مرحوم کو مع پرنسپل گورنمنٹ ایمرسن کالج ڈی ایم ایل اے (ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) کے دفتر میں طلب کر لیا گیا۔ ابا جی گورنمنٹ ایمرسن کالج میں لائبریرین تھے۔ گورنمنٹ ملازم گھڑے کی مچھلی ہوتا ہے جب چاہا دبوچ لیا۔ سو ابا جی کو مارشل لاء کے دفتر میں بلایا گیا کہ ان کا بیٹا ہنگامہ آرائی کرتا ہے۔ ابا جی تب ایمرسن کالج کی ڈسپلن کمیٹی کے رکن تھے اور جب ہنگامہ ہوا تب پرنسپل کے ہمراہ سارا واقعہ دیکھ رہے تھے۔ جب ڈی ایم ایل اے نے میز پر اپنی سٹک مار کر کہا کہ آپ گورنمنٹ ملازم ہیں اور آپ کا بیٹا حکومت کے خلاف ہنگامہ آرائی کرتا ہے تو ابا جی نے کہا: سر! اگر میرے بیٹے نے یہ جرم کیا ہوتا تو میں اسے خود اپنے ہاتھوں سے قانون کے حوالے کرتا مگر اسے تو رات گئے گھر سے گرفتار کر کے لے جایا جا چکا تھا‘ ہنگامہ آرائی سے قریب بارہ تیرہ گھنٹے قبل۔ میں موقع پر موجود تھا۔ پرنسپل صاحب وہی موجود تھے۔ میرا بیٹا اسی کالج سے فارغ التحصیل ہے اور سارا کالج سٹاف مع پرنسپل صاحب اسے جانتا ہے۔ اگر وہ موقع پر موجود ہوتا تو سب اسے پہچانتے ہیں۔ ڈی ایم ایل اے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ کہنے لگا: آپ اس کی طرف سے معافی نامہ دے دیں ہم اسے ابھی چھوڑ دیں گے۔ ابا جی نے کہا کہ اگر آپ اس پر یہ جرم عائد کریں کہ وہ طلبہ کی فلاں تنظیم سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس پر معافی نامہ جمع کروا دوں گا‘ مگر جو جرم اس نے کیا ہی نہیں اس پر معافی نامہ کیسا؟ ابا جی گھر واپس آ گئے اور میں ایک ماہ سے زیادہ جیل میں رہا۔ تب کرایہ داری والا قانون نہ تھا‘ ہوتا تو ممکن ہے ابا جی کو اس جرم میں دھر لیا جاتا مگر تب طلبہ کو تو جعلی ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا؛ تاہم استاد ابھی اس اخلاقی انحطاط پذیر روایات کا شکار نہ ہوئے تھے۔

قانون اندھا ہوتا ہے۔ یہ ایک مشہور جملہ ہے۔ اس سے مراد ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں قانون اندھا نہیں‘ کانا ہے۔ دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں، قرابت داروں، سیاسی ہمنوائوں، زور آوروں کی طرف والی آنکھ بند رکھتا ہے اور دوسری طرف والی کھلی رکھتا ہے۔ باقاعدہ اس والی آنکھ سے دیکھ بھال کر مطلوبہ بندے کو گھیرتا ہے اور دوسری بند آنکھ سے باقاعدہ دیکھ بھال کر دوسری قسم کے لوگوں سے صرف نظر کرتا ہے۔ میرا تو بس صرف ایک مطالبہ ہے کہ خدارا پرچہ درج کرنا تو سیکھ لو۔ ایف آئی آر لکھنے کا سلیقہ تو سیکھ لو۔
ظاہر ہے قانون میں میاں نواز شریف کی تقریر لکھنا‘ انہیں جیل ملنے جانا۔ ان سے محبت کرنا۔ ان کی حکومت میں بطور مشیر کام کرنا اور اسی قبیل کے دیگر ”جرائم‘‘ بہر حال جرم کے طور پر نہ تو درج ہیں اور نہ ہی تعزیرات پاکستان کی کسی دفعہ کے تحت ان جرائم کے مرتکب شخص کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جب تک وہ درج بالا خصوصیات سے مغلوب ہو کر کوئی قابل دست اندازیٔ پولیس جرم نہ کر دے۔ ظاہر ہے عرفان صدیقی نے اس ساری محبت کے باوجود نہ تو کوئی قانون توڑا اور نہ ہی کوئی قابل دست اندازیٔ پولیس جرم کیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے تو کرپشن بھی نہیں کی تھی۔ اس گرفتاری سے پہلے مجھے یقین تھا کہ عرفان صدیقی نے اپنی مشاورت کے دور میں کوئی کرپشن نہیں کی لیکن اس گرفتاری سے یہ یقین حق الیقین میں بدل گیا کہ انہوں نے واقعتاً کوئی کرپشن نہیں کی۔ اگر کی ہوتی تو سرکار کو انہیں کرایہ داری ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار نہ کرنا پڑتا۔
ایک دوست نے بتایا کہ مشیر بننے کے بعد عرفان صدیقی اگر لاہور آتے تھے تو شروع میں ڈیرہ غازیخان کے ایک ایم این اے کے ادارے میں ایک کمرہ استعمال کرتے رہے؛ تاہم بعد ازاں اپنی وزارت کے ایک دفتر میں کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا ایک کمرہ صاف کروا کر اس میں ایک اور دوست سے (یہ دوست تحریکِ انصاف کا سرگرم رکن ہے)‘ جو فرنیچر کا کام کرتا ہے‘ فرنیچر ادھار لے کر کمرہ تیار کیا اور اپنی لاہور آمد پر یہ کمرہ استعمال کرتے رہے۔ اگر انہیں اس کمرے کے ناجائز استعمال پر گرفتار کیا جاتا تو شاید مجھے اتنی حیرت نہ ہوتی، جتنی اب ہوئی ہے کہ مکان ان کے بیٹے کے نام پر ہے اور گرفتاری والد کی ڈالی گئی۔ مجھے اس بات کا صدمہ نہیں کہ اٹھہتر سالہ استاد کو ہتھکڑی لگی کہ یہاں اساتذہ کو ہتھکڑی لگنے کی روایت اب کافی پختہ ہو چکی ہے اور بڑے بڑے جید اور قابل استاد ہتھکڑیوں میں گھمائے جا چکے ہیں۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ ایک استاد اور لکھاری کو کس بھونڈے طریقے سے جرمِ بے گناہی میں پکڑا گیا۔ ظاہر ہے اس احمقانہ گرفتاری سے پہلے پوری چھان بین کی گئی ہوگی۔ کرپشن کے امکانات کو کھنگالا گیا ہوگا۔ عہدے کے ناجائز استعمال کی کھوج لگائی گئی ہوگی۔ بطور مشیر حاصل مراعات میں اونچ نیچ کے بارے پوری تفتیش کی گئی ہوگی۔ ان کے ماتحت اداروں میں ہونے والی کرپشن کے ڈانڈے ان کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہوگی اور ہر طرف سے ناکامی کے بعد ان پر کرایہ داری ایکٹ کا ملبہ ڈال کر گرفتار کیا ہو گا۔

عرفان صدیقی صاحب! آپ کو مبارک ہو۔ اس پرچے نے آپ کے کردار کو دھو دھلا کر سب کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہاں لوگ برسوں جرمِ بے گناہی کی چکی میں پس کر اپنے دامن کے داغ نہیں دھو پاتے‘ آپ کیسے خوش قسمت ہیں کہ صرف دو گھنٹے کی ہتھکڑی اور ایک دن کی قید نے آپ کی بے گناہی ثابت کر دی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا کہ کرپشن کے خلاف چلنے والی مہم اب کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون میں بدل گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے