دفعہ 370 کی منسوخی یاانضمام کی تکمیل؟ایک مختلف زاویہ

ہندوستان کی حکومت نے کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کے تحت 5 اگست 2019 کو راجیہ سبھا میں ایک بل پیش کیا ہے، جس کے تحت1954 کاحکم نامہ اور اس تسلسل میں جاری ہونے والے سارے حکم نامے، جن میں دفعہ 35A بھی شامل ہے ، ختم کیے گئے ہیں- ریاست کو دو حصوں میں تقسم کیا گیا ہے- ایک حصہ لداخ کا ہوگا جو براہ راست یونین ٹیریٹری ہوگی، یعنی مرکز کا حصہ ہوگا ، جس کی اپنی اسمبلی نہیں ہوگی ، مرکز کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق چلایا جائے گا – جموں اور وادی کو ملا کر دوسرا یونٹ بھی یونین ٹیریٹری ہوگا لیکن اس کی اسمبلی ہوگی تاہم مرکزی معاملات مرکز باقی صوبوں / ریاستوں کی طرح چلائے جائیں گے-

پاکستان نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو الگ الگ یونٹ بناکے اس کی ابتداء کی تھی اور اس وقت بھی گلگت بلتستان میں منسٹری آف کشمیر ، یعنی حکومت پاکستان کی ہی بالا دستی ہے – پاکستان کو اب یہ صورت حال کنفرنٹ کرنا پڑے گی –

اس طرح 1952 کا ریاستی آئین بھی ختم ہوگیا اور ہندوستانی آئین کی دفعہ 3 جس کے تحت ریاست کی کسی بھی طور تقسیم ریاستی اسمبلی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگی، بھی ختم ہو گیا ہے – ہندوستانی حکومت نے بڑی چابک دستی اور انتہائی شاطرانہ ذہن سے یہ ترمیمی حکم جاری کیا ہے ، جس کے تحت دفعہ 370 اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس کے تحت ہندوستانی آئین اور قانون کے ریاست پر اطلاق کے لیے جو پابندیاں تھیں وہ ختم ہوگئی ہیں.

اب ہندوستان کا آئین مع جملہ ترامیم اور ان قوانین کے جن کے بنانے کا اختیار مرکز کو حاصل ہے ، باقی ریاستوں کی طرح کشمیر میں بھی اسی طرح ہو بہو نافذ ہوں گے جس طرح باقی ریاستوں میں ہوتے ہیں – اس دفعہ میں” آئین ساز اسمبلی “ کو” قانون ساز اسمبلی “میں بدل دیا گیا ہے، جس کا بہ الفاظ دیگر یہ مطلب ہے اس دفعہ کے تحت جو کام آئین ساز اسمبلی کے کرنے کا تھا، وہ اب قانون ساز اسمبلی کرے گی-

اسی طرح گورنر وہ شخص سمجھا جائے گا جو مرکز نے مقرر کیا ہے اور حکومت سے مراد گورنر ہوگا ، جو کونسل آف منسٹرز کی سفارش پر کام کرے گا – ایک اور ترمیم بھی ہے لیکن وہ صرف آئین اور قانون کی تشریح کے حوالے سے ہے ، اس کالم میں وہ قارئین کی دلچسپی کی نہیں –

حاصل کلام یہ ہے دفعہ 370 ختم نہیں ہوئی البتہ اس کے معنی بدل دیے گئے ہیں ، جس کی رو سے ریاست کا انضمام مکمل کیا گیا ہے اور اس دفعہ کے ذریعہ ہی ریاست باقی ریاستوں کے برابر بنا دی گئی ہے – تاہم یہ حکم نامہ اس دن سے نافذ ہوگا جس دن اس کو گورنمنٹ گزٹ میں شائع کیا جائے گا –

آج کے بعد کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ غاصبانہ ہے اور اس کی حیثیت 15 اگست1947 کی ہوگئی ہے- اس کے بعد کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے علاوہ ، تمام باہمی معاہدے بشمول شملہ معاہدہ ، ختم تصور ہو ں گے،
اب پاکستان کو ہندوستان سے سفارتی تعلقات رکھنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا –

پاکستان کو سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرنا چاہیے کہ ہندوستانی کا اب کشمیر پر قبضہ ناجائز ہو گیا ہے ، کشمیر میں ہندوستانی فوج قابض فوج ہے ، ریاست کو فوج کے حوالہ کرنا، پاکستان کے ساتھ سرحد پر فوجوں کو جمع کرنا اور گولہ باری جیسے اقدامات سے بین الاقوامی امن کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے،اس لیے اقوام متحدہ کی امن فوجیں وادی کشمیر میں اتاری جائیں-

اللہ تعالی نے کشمیریوں اور پاکستان کو ایک نیا موقعہ فراہم کیا ہے ، جس کو ذہانت، فطانت، ملکی، بین الاقوامی سطح پر پر زور طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے – اس کے لیے بین الاقوامی قوانین ، اداروں کے رولز آف پروسیجر اور پریکٹس کے ماہرین ، ہندوستان ، پاکستان اور کشمیر کی سیاسی اور آئینی تاریخ کے ماہرین کی مشاورت کے بغیر ، صرف کیرئیر ڈپلومیٹس اور بیورو کریٹس کے حوالے نہ کیا جائے ، یہ لوگ اُن ماہرین کے معاون کے طور کام کریں ، ماہر کے طور نہیں – اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے-

کشمیر میں ہندوستانی فوجوں میں اضافہ اس آئینی تبدیلی کے رد عمل کو دبانے اور پاکستان کو اپنی فوجوں کو مغرب سے مشرقی سرحد پر منتقل کرکے افغان مسئلہ کے پر امن حل اور امریکی فوجوں کا انخلاء ناممکن بناناچاہیئے، اس پر بڑے تدبر کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے-

مقبوضہ کشمیر کی آزادی پسند جماعتوں کے علاوہ ،ہندوستان نواز سیاسی جماعتیں بھی اس عمل کے خلاف ہیں، پاکستان اور آزادی پسند کشمیری جماعتوں کو ان کے ماضی کے حوالے سے ہی نہ دھتکاریں، بلکہ اس مرحلہ پر ان کو ساتھ لے کے چلیں ، آزادی پسند بھی کسی زمانے میں مین سٹریم کا حصہ تھے-

عید الاضحیٰ اور عید آزادی کے درمیان ہندوستان کوئی بھی شرارت کر سکتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی خوشیاں دیکھی نہیں جاتیں ، سرحدوں کو مسدود اور سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کو اسلحہ سے لیس کیے جائے کی ضرورت ہے ، پاکستان سے جوڑنے والے پلوں کی غیر معمولی حفاظت ، جہاں سے فائر آتا ہے ، اس جگہ کو میزائل سے مٹانے اور اینٹی بلاسٹک میزائیل سے آنے والے میزائیل کو روکنے کی ضرورت ہے.

سیاست دان ایک دوسرے کو اور حکومتی قیادت مخالفین کو نیچا دکھانے کی بجائے برداشت کا حوصلہ پیدا کریں ، دنیا بھر میں کشمیریوں سے ہمدردی رکھنے والوں سے رابطہ میں رہنے اور ان کے زریعہ ان ملکوں کے ایوانوں تک بات پہنچانے کی تلقین کریں جہاں وہ رہتے ہیں-

ہندوستان کی بربریت کے بارے میں بے شمار حقائق موجود ہیں، دوستوں کو بغیر تحقیقات ، علم اور جان کاری کے غلط، مبالغہ آرائی اور مسخ شدہ واقعات نہیں لکھنے چاہییں ، اس سے غیر جانب دار خبروں والے سچ کو بھی جھوٹ سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے- یہ کہنے میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہو سکتا کہ یہ سارا کچھ عالمی سطح پر کسی بڑی گیم کا حصہ ہو اور پاکستان کو بھی اس کی خبر ہو، کیونکہ ڈپلومیسی ہاتھی کے دانت جیسی ہوتی ہے ، جس کے کھانے اور دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں ، اگر ایسا ہے تو اس کے لیے بھی ہوم ورک کی ضرور ت ہے ، جس میں ہماری سٹیٹڈ پوزیشن تو وہی ہو جو چلی آرہی ہے ، لیکن باٹم لائن پروپوزل کے لیے بھی تیاری کرنے کی ضرورت ہے-

اگر کسی دوست کو اس سلسلے میں کچھ اور جاننے کی ضرورت ہو تو میرے ساتھ 03005311930 پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ ایک حساب ایشو ہے ، اس کو ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے