ہانگ کانگ میں مظاہرین آگ کیساتھ کھیل رہے ہیں: چین کی وارننگ

چین نے ہانگ کانگ کے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ وہ آگ کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

ہانگ کانگ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں اور پیر کے روز ہڑتال کے باعث چین کے زیر انتظام علاقے کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 200 سے زائد پروازیں منسوخ ہو گئی تھیں۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس کی جانب سے شہریوں پر تشدد کی شفاف انکوائری کی جائے اور قیدیوں کی چین کو حوالگی کے حوالے سے بل کو مکمل طور پر ختم کرنے کے ساتھ ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لیم مستعفی ہوں۔

ہانگ کانگ کے شہریوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ چین اُن کی آزادی پر قدغن لگا رہا ہے اور انہیں اس طرح آزادی حاصل نہیں ہے جس طرح بیجنگ میں شہریوں کو حاصل ہیں۔

ہانگ کانگ کے حوالے سے چین کے پالیسی آفس کے ترجمان نے مظاہرین سے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کے مسئلہ حل کرنے کے عزائم کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

ترجمان یانگ گوانگ کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے کانگ کانگ کو انتہائی خطرناک صورت حال کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

انہوں نے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ اپنی غلطی کو کمزوری کی راہ میں مزاحمت نہ بنائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیری لیم کو مستعفی کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے لیکن مظاہروں کے ہانگ کانگ کی معیشت پر بہت برے اثرات پڑے ہیں۔

برطانوی میڈیا کے مطابق یہ چین کی جانب سے مظاہرین کو جاری کی گئی اب تک کی سب سے سخت تنبیہ ہے کیونکہ بیجنگ کا ہانگ کانگ اور مکاؤ آفس بہت کم ہی پریس کانفرنس کرتا ہے لیکن یہ اس آفس کی جانب سے دو ہفتوں میں دوسری پریس کانفرنس ہے۔

یانگ گوانگ کا کہنا ہے کہ قدامت پسند اور پرتشدد عناصر مظاہروں میں آگے آگے ہیں جب کہ کچھ حقائق سے ناواقف لیکن اچھے مقاصد رکھنے والے شہری مظاہروں کے دوران پیچھے دیکھے گئے۔

انہوں نے چین مخالف مغربی طاقتوں کو مظاہروں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی کی مثال دی اور بتایا کہ انہوں نے مظاہروں کو ایک خوبصورت منظر کہا اور برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کی جانب سے مظاہرین پر پولیس تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔

تاہم چین کے جمہوریت پسند سیاستدان لیم چیوک ٹنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ مظاہروں کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے