کشمیر کہانی …1 ٹو 4

ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ بیٹھے ہوئے‘ دہلی سے سری نگر آنے سے پہلے سردار پٹیل کے ساتھ ہونے والی وہ خفیہ گفتگو یاد آئی جس کی وجہ سے وہ اب کشمیر آئے تھے۔ مائونٹ بیٹن کو احساس تھاکہ وہ بہت اہم مشن پر سری نگر آئے ہوئے ہیں اور وہ اس مشن کی ناکامی افورڈ نہیں کر سکتے۔

ہری سنگھ معمولی راجہ نہیں تھا۔ وہ ایک ایسی ریاست کا راجہ تھا جو اسے باپ دادا سے ملی تھی‘ جہاں پاکستان، ہندوستان، چین اور تبت کی سرحدوں نے ملنا تھا۔ راجہ ہری سنگھ اور مائونٹ بیٹن کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی۔ مائونٹ بیٹن کو یاد آیا‘ وہ برسوں پہلے اسی کشمیر میں پرنس ویلز کے ساتھ آیا تھا اور انہوں نے یہاں سرسبز میدانوں میں پولو اکٹھے کھیلی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے راجہ اور وائسرائے کو اپنی جوانی کے وہ دن یاد آئے‘ جب دونوں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر سوار تھے۔ وہ اپنے گھوڑوں کی سموں کی آوازیں آج بھی محسوس کر سکتے تھے۔
مائونٹ بیٹن کی جانب سے آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں موجود 565 ریاستوں کے راجوں‘ مہاراجوں میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن انہیں اپنی ریاستوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے‘ انہوں نے جو ٹائٹل پہلے برٹش حکومت کو سرنڈر کیے تھے‘ اب دوبارہ بھارتی یا پاکستانی حکومت کو سرنڈر کرنا ہوں گے۔

ان کے لیے یہ خیال ہی قیامت سے کم نہ تھا کہ وہ اب اپنی اپنی ریاستوں کے عوام کے سیاہ و سفید کے مالک نہیں ہوں گے بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ غالباً پاکستان یا ہندوستان میں ان پر مقدمے چل سکتے تھے اور انہیں عام لوگوں کی طرح ٹرائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ ان کی تمام مراعات اور عیاشیاں ختم ہونے جارہی تھیں۔ بہت سارے راجے بٖغاوت پر اترے ہوئے تھے اور وہ اتنی آسانی سے انگریز سرکار کی تقسیم سے خوش ہونے والے نہیں تھے۔ وہ سب چاہتے تھے وہ اسی طرح آزاد رہیں جیسے انگریز حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھانے سے پہلے وہ تھے۔ ان راجوں کا ایک وفد مائونٹ بیٹن سے بھی ملا تھا جس میں انہوں نے جہاں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا وہیں انہوں نے فرنگی سرکار کو اپنی ان خدمات کا بھی حوالہ دیا تھا جو وہ ان برسوں میں انجام دیتے آئے تھے۔

وہ راجے اب چاہتے تھے کہ جب انگریز ہندوستان سے واپس جا رہا ہے تو کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ انہیں پاکستان یا ہندوستان کے درمیان بانٹ کر چلا جائے اور وہ تخت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ راجے چاہتے تھے کہ واپس جاتے ہوئے گورے ان کا وہی سٹیٹس بحال کرکے جائیں جو ان کے آنے سے پہلے تھا۔ بہت سارے راجوں‘ مہاراجوں کو مائونٹ بیٹن ذاتی طور پر جانتا تھا۔ کچھ تو اس کے بہت قریبی دوست تھے۔ جب وہ پرنس آف ویلز کے ساتھ برسوں پہلے ہندوستان آیا تھا تو وہ بہت ساری ریاستوں میں ان راجوں‘ مہاراجوں اور شہزادوں کا مہمان بنا رہا تھا۔ اس نے ان کی ریاستوں میں بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ ان راجوں کے ہاں اس نے ہاتھی کی پیٹھ پر بیٹھ کر شکار کھیلے تھے، زبردست قسم کی دعوتیں اڑائی تھیں۔ اور تو اور ایک راجے کے ہاں تو اس نے ایک انگریز گوری کے ساتھ بال روم میں ڈانس بھی کیا تھا جس کے بعد اس نے شادی کر لی تھی۔

شاید یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے یہ راجے مہاراجے، پٹیالہ کے مہاراجہ کے ہاں اکٹھے ہوئے تھے‘ جہاں انہوں نے وائسرائے پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ اگر ہندوستانی سیاستدان ہندوستان کو تقسیم کر سکتے ہیں تو وہ راجے مہاراجے ہندوستان کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان راجوں کے ذہن میں تھا کہ اگر ان کی نہ مانی گئی تو پھر وہ اپنی اپنی ریاستوں کی آزادی کے لیے اپنے ہاں نسل، مذہب، قوم، زبان، رنگ کی جنگ کو ابھار کر پورے ہندوستان میں آگ لگا سکتے ہیں۔ ان شہزادوں کے پاس اپنی پرائیویٹ آرمی تھی‘ جیٹ جہاز تھے، اور سب سے بڑھ کر یہ لوگ ہندوستان میں ریلوے لنکس، کمیونیکیشن سسٹم کو ناکارہ کرکے انتشار پھیلا سکتے تھے۔ ٹیلی فون، ٹیلی گرام سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اور تو اور یہ کمرشل فلائٹس کو بھی ڈسٹرب کر سکتے تھے۔

اب وائسرائے کیلئے ان کی دھمکیوں کے آگے جھک جانے کا مطلب تھا کہ پورے برصغیر کو ہی ایک ایسے آتش فشاں پر چھوڑ دیا جائے‘ جو پھٹ کر پورے ہندوستان‘ پاکستان کو تباہ کر سکتا تھا۔ سینکڑوں ریاستیں کیسے ایک ساتھ رہ سکتی تھیں‘ خصوصاً جب ان کے ایک دوسرے سے شدید اختلافات ہوں اور جن کا رنگ، نسل، مذہب، زبان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ یہ ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور چین یقینا اس سے خوش ہوگا‘ اس لیے چین بھی گوروں کے ذہن میں تھا۔

اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے وائسرائے ہند نے جو پلان بنا کر لندن بھیجا تھا‘ وہ کچھ ترامیم کے ساتھ واپس بھیجا جا چکا تھا۔ مائونٹ بیٹن کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ وہ یہ پلان نہرو کو دکھا دیں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن عمر بھر اپنے اندرونی وجدان پر بھروسہ کرتا آیا تھا‘ اور اس کے خدشات ہمیشہ درست نکلتے تھے۔ نہرو کو وہ پلان دکھانے سے پہلے مائونٹ بیٹن نے اپنے سٹاف کے ساتھ یہ بات شیئر کی تو وہ دہشت زدہ ہو گیا۔ سٹاف نے وائسرائے کو بتایا کہ یہ بہت خطرناک آئیڈیا ہے۔ اگر اس کی بھنک مسلمانوں کے راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو پڑ گئی تو سارا پلان خطرے میں پڑ جائے گا۔ مسلمان یہ سمجھیں گے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے‘ وائسرائے نے نہرو اور کانگریس کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کا پلان بنا کر اس کی منظوری لندن سے لے لی ہے۔

وائسرائے ہند بڑے غور سے اپنے سٹاف کے خدشات سنتا رہا‘ جو اسے روک رہے تھے کہ اسے ہندوستان کی تقسیم کا پلان نہرو کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اپنی انگلیاں اپنے سامنے پڑی میز پر دھیرے دھیرے بجا کر گہری سوچ میں غرق رہا۔

جب اس کے سٹاف نے وہ سب باتیں کر لیں تو وائسرائے بولا: آپ سب لوگ درست ہیں۔ عقل کا یہی تقاضا ہے کہ یہ پلان نہرو کو نہیں دکھانا چاہیے۔ اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کی باتوں میں بہت وزن ہے۔ پھر وائسرائے نے گہری سوچ سے نکلتے ہوئے کہا: وہ عمر بھر اپنی اندرونی آوازوں کو سنتا آیا ہے اور اب کوئی اندرونی آواز کہہ رہی ہے کہ اسے پلان نہرو کو دکھا کر اس کی رائے لینی چاہیے۔

لارڈ مائونٹ بیٹن کا بار بار اپنے گمان کی طرف اشارہ دراصل فروری 1941ء کے حوالے سے تھا‘ جب وہ جنگ عظیم دوم کے دوران برٹش نیوی کو کمانڈ کر رہا تھا۔ وہ اپنے بحری جہازوں کو Bicay کے ذریعے جبرالٹرز کی طرف جا رہا تھا‘ جب انہیں اطلاع ملی کہ دو جرمن بحری جہاز بھی Saint Nazire کی طرف جا رہے ہیں۔ انہیں کہا گیا کہ وہ ان جرمن جہازوں کو پکڑیں۔ اس پر لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے عملے کو Brest کی طرف رخ موڑنے کا کہا۔ عملے نے احتجاج کیا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ جرمن بحری جہازوں کو Saint Nazire کے ذریعے جا کر پکڑیں نہ کہ Brest کی جانب سے۔ اس پر مائونٹ بیٹن نے کہا: میرا وجدان کہتا ہے کہ ہمیں Brest جانا چاہیے۔ میں اگر ان جرمن بحری جہازوں کا کپتان ہوتا تو میں سورج ڈوبنے کے بعد Saint Nazire کا روٹ نہ لیتا بلکہ Brest کے روٹ کو ترجیح دیتا۔ وہی ہوا۔ مائونٹ بیٹن اپنے جہازوں کو اسی طرف لے گیا اور جرمن جہاز وہیں سے گزر رہے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ اب ایک دفعہ پھر لارڈ مائونٹ بیٹن کا وجدان کہہ رہا تھا کہ اسے لندن پلان سامنے لانے سے پہلے نہرو کو خفیہ طور پر یہ پلان پڑھوانا چاہیے۔ اسی رات مائونٹ بیٹن نے نہرو کو اپنی سٹڈی میں بلایا اور لندن پلان کا ایک مسودہ اس کے حوالے کرکے کہا: اسے پڑھیں اور بتائیں‘ اگر اسے اوپن کیا جائے تو کانگریس کا کیا ردعمل ہوگا؟ نہرو نے خود کو بہت اہم تصور کیا کہ وائسرائے ہند اسے وہ مسودہ دکھا رہا تھا جو ابھی تک کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ نہرو خوشی خوشی مسودہ گھر لے گیا اور رات کو ہی اسے پڑھنا شروع کر دیا۔

جوں جوں نہرو تقسیم کا مسودہ پڑھتا گیا اور کا رنگ فق ہوتا چلا گیا ۔ جب نہرو آخری صفحے پر پہنچا تو وہ تقریباً چیخ پڑا کہ یہ لارڈ مائونٹ بیٹن ہندوستان کی تقسیم کا کیاخوفناک منصوبہ بنا کر بیٹھا ہے۔

نہرو نے سوچا بھی نہ تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اس طرح کا منصوبہ بنا کر بیٹھا ہے جس کے مطابق وہ ہندوستان میں دو نہیں بلکہ درجن بھر آزاد ملک چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔

اس پلان کے تحت لارڈ مائونٹ بیٹن نے طے کیا ہوا کہ پاکستان کے علاوہ بنگال بھی آزاد ملک بنے گا۔ نہرو یہ سوچ کر ہی کانپ گیا کہ وہ بھارت جس کی آزادی کے لیے سب لڑتے رہے تھے اس کا اہم علاقہ ایک آزاد ملک بنے گا؟ بنگال‘ جو ہندوستان کا دل تھا‘ ہمیشہ کے لیے اس کے سینے میں ایک آزاد ملک بن کر پیوست رہے گا۔ بنگال کوکھونا وہ کیسے افورڈ کر سکتے تھے؟ کلکتہ ایک تاریخی ساحلی شہر اور اس کے کارخانے، ملیں، سٹیل ورکرز سب کچھ ہندوستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

پھر کشمیر، جہاں وہ پیدا ہوا تھا وہ اب آزاد ریاست کے طور پر ہندوستان کے ایک کونے میں جنم لے گا اور اس پر ہری سنگھ جیسا راجہ راج کرے گا جس سے وہ نفرت کرتا تھا۔ اور اس سے بڑھ کر لارڈ مائونٹ بیٹن کے پلان میں یہ بھی شامل تھا کہ ہندوستان کے دل میں حیدر آباد دکن کی شکل میں ایک آزاد مسلمان ریاست بنائی جائے گی۔ ان کے علاوہ اس پلان میں چند اور بھی شاہی ریاستیں شامل تھیں جنہیں لارڈ مائونٹ بیٹن پلان کے تحت آزادی ملنا تھی۔

نہرو کو سمجھ آ رہی تھی کہ انگریز جان بوجھ کر ہندوستان کو درجنوں نئے ملکوں میں بانٹ رہے تھے تاکہ وہ کبھی ایک طاقتور ملک کے طور پر نہ ابھر سکے‘ ہمیشہ یہ چھوٹے موٹے ملک آپس میں لڑتے رہیں اور کمزور رہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان کو تین سو سال تک ”تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر چلایا تھا‘ اور اب ہندوستان کو چھوڑنے سے پہلے کمزور کرکے جارہے تھے۔ اب انگریزوں کا نیا منصوبہ تھا ”بانٹو اور چھوڑ دو‘‘۔

نہرو نے اپنے ہاتھ میں مائونٹ بیٹن کا دیا ہوا مسودہ پکڑا اور اپنے قریبی معتمد خاص کرشنا مینن کے بیڈ روم میں گیا‘ جو اس کے ساتھ شملہ گیا ہوا تھا۔ انتہائی غصے کی حالت میں نہرو نے وہ مسودہ اس کے بستر پر پھینکا اور بولا ”سب کچھ ختم ہو چکا ہے‘‘۔

لارڈ مائونٹ بیٹن کو اپنے دوست نہرو کے اس سخت ردعمل کا اندازہ اگلی صبح ہوا جب اسے ایک خط ملا جو نہرو نے اسے لکھا تھا۔ اس خط کو پڑھ کر لارڈ مائونٹ بیٹن کو یوں لگا جیسے اس پر کسی نے بم دے مارا ہو۔ وہ یہ توقع رکھے پوری رات سکون سے سوتا رہا تھا کہ اس نے نہرو کو جو پلان پڑھنے کو دیا تھا وہ نہرو کو پسند آئے گا اور نہرو جا کر کانگریس کو بھی اس پلان پر قائل کر لے گا اور یوں وہ یعنی لارڈ مائونٹ بیٹن‘ جسے لندن سے خصوصاً بھیجا گیا تھا کہ اس نے انیس سو اڑتالیس تک ہندوستان کو آزاد کرنے کا پلان منظور کرنا ہے‘ وہ کام جلدی نمٹا لے گا اور دوبارہ سمندری پانیوں میں لوٹ جائے گا۔ وہ کام جو اسے بہت پسند تھا۔

جب مائونٹ بیٹن نے وہ خط پڑھنا شروع کیا تو اسے یوں لگا کہ اس نے پچھلے چھ ہفتوں میں اپنے تئیں بڑی محنت اور عرق ریزی سے جو پلان تیار کیا تھا اور ایک ڈھانچہ بنایا تھا‘ نہرو نے ایک ہی ہلے میں اس کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اسے اپنی ساری محنت اکارت جاتی نظر آئی۔ نہرو نے انتہائی سخت الفاظ میں اس سارے پلان کو مسترد کر دیا تھا۔ نہرو نے لکھا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے اس پلان نے نہ صرف اسے خوفزدہ کر دیا بلکہ اسے یقین ہے کہ اگر وہ کانگریس کے ساتھ یہ شیئر کرے تو وہ اس پلان کو اس سے بھی زیادہ برے طریقے سے مسترد کر دے گی۔

جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہرو کا وہ خط ختم کیا تو اسے لگا کہ اس نے اب تک جو خود کو اور پوری دنیا کو یہ یقین دلایا ہوا تھا کہ اس کے پاس ہندوستان کی آزادی کا پلان ہے اور اگلے دس دنوں میں وہ سب کو اس پلان پر راضی کر لے گا، وہ سب غلط فہمی تھی۔ نہرو کے سنگین اعتراضات کے بعد مائونٹ بیٹن کو یوں لگا کہ جس پلان کو وہ دنیا کے سامنے لانا چاہتا تھا‘ اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مائونٹ بیٹن یہ پلان برطانوی وزیراعظم ایٹلی کو بھیج چکا تھا‘ پوری کابینہ اس پلان پر اپنے اجلاس میں بحث کررہی تھی اور اس بارے میں مائونٹ بیٹن وزیراعظم کو بتا چکا تھا کہ وہ ہندوستانیوں کو اس پر راضی کر لے گا۔ اب اسے پتہ چلا کہ پورے ہندوستان کو چھوڑیں وہ تو محض کانگریس کو اس پلان پر راضی نہیں کرسکا تھا۔

تو کیا لارڈ مائونٹ بیٹن کو خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا کہ اس نے ہندوستان کی آزادی کا پلان بنایا، اسے لندن بھیج دیا اور نہرو کو کل رات اس کی کاپی دے کر رات کو سکون سے سو گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ اس کا خیال تھا کہ وہ جس کام کے لیے ہندوستان بھیجا گیا تھا وہ مشن پورا ہو جائے گا اور وہ دوبارہ اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ جائے گا۔ وہ اب تاریخ میں وائسرائے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے جنگ عظیم دوم کے بعد مسائل میں پھنسے برطانیہ کو ہندوستان سے بڑے آرام اور عزت کے ساتھ نکال لیا تھا؟ اس کا نام تاریخ میں عزت سے لکھا جائے گا؟ تو کیا خود پر زیادہ اعتماد لارڈ مائونٹ بیٹن کو لے ڈوبا تھا؟

لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن ایک عام انسان نہ تھا جو نہرو کے اس سخت خط کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہو جاتا اور کسی کیفے یا بار میں بیٹھ کر کڑھتا رہتا کہ اس کا چھ ہفتے کی محنت سے بنایا ہوا پلان مسترد ہو گیا ہے اور وہ اب برطانوی حکومت اور دنیا بھر کو کیا منہ دکھائے گا کیونکہ اس نے دس دن بعد یہی پلان سامنے لانا تھا جو مسترد ہو چکا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے سب سے پہلے خود کو مبارک باد دی کہ ایک دفعہ پھر اس کا وجدان درست نکلا تھا۔ اس نے سوچا‘ شکر ہے اس نے وہ مسودہ نہرو کو دے دیا کہ وہ پڑھ لے۔ اگر وہ یہ منصوبہ برطانوی حکومت سے منظوری کے بعد سامنے لاتا اور اس کو کانگریس مسترد کر دیتی تو یقینا اسے بہت پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا اور ایک نیا بحران پیدا ہو جاتا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے خود کو سنبھالا اور سوچنے لگ گیا کہ اب فوری طور پر اسے کیا کرنا چاہیے تاکہ جو نقصان ہو چکا تھا اس کا ازالہ کیا جا سکے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہ تسلی تھی کہ اس بم شیل کے باوجود اس کی نہرو سے دوستی بچ جائے گی۔

لارڈ مائونٹ بیٹن نے فوراً ایک پیغام نہرو کو بھیجا کہ وہ فوری طور پر دلی واپس نہ جائے بلکہ ایک رات وہ مزید شملہ میں ٹھہر جائے۔ نہرو ایک رات مزید ٹھہرنے پر رضامند ہو گیا۔ طے ہوا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو اکٹھے بیٹھ کر اس پلان پر غور کریں گے اور نئے سرے سے پلان بنے گا اور ان خامیوں کو نکالا جائے گا جن پر نہرو کو اعتراض تھا۔ اس نئے پلان کے تحت ہندوستان کی تمام ریاستوں اور صوبوں کو ایک ہی آپشن دیا جائے گا۔ پاکستان یا ہندوستان۔

نہرو اور لارڈ مائونٹ بیٹن اس رات اکٹھے ہوئے۔ دونوں کے درمیان شملہ میں طے ہوا کہ بنگال آزاد نہیں ہوگا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ جناح کے پاس جو دو علاقے یا ریاستیں جا رہی ہیں وہ زیادہ دیر تک پاکستان میں نہیں رہ سکیں گی۔ کچھ عرصے بعد مائونٹ بیٹن نے اپنے دوست راج گوپال کو کہا تھا کہ مشرقی بنگال پچیس سال کے اندر اندر پاکستان سے الگ ہو جائے گا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ نے مائونٹ بیٹن کی اس پیش گوئی کو درست ثابت کر دیا تھا۔

ایک دفعہ جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے طے کر لیا وہ اب نہرو کے پلان پر چلے گا تو انہوں نے ایک ایسے افسر کو اپنی سٹڈی میں بلایا جو اس پلان کو بیٹھ کر لکھے۔ اس کی ایسی کہانی تھی جس نے لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو متاثر کیا تھا۔
وی پی مینن کون تھا؟ اس کے پاس نہ آکسفورڈ یا کیمبرج کی ڈگری تھی نہ ہی وہ انڈین سول سروس کا افسر تھا اور نہ ہی وہ سیاسی خاندان سے تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن جیسا بندہ اس سے متاثر ہوتا؟ اہم سوال یہ تھا کہ وی پی مینن کون تھا جو نئے وائسرائے ہند کا اعتماد جیت کر اب اس کے ساتھ بیٹھ کر شملہ میں ہندوستان کی تقسیم کا نیا پلان لکھ رہا تھا؟

وی پی مینن کی کہانی بہت مسحور کن ہے کہ کیسے ایک عام سا لڑکا وائسرائے ہند کا معتمد خاص بن گیا۔ یہ لڑکا جس عام سے خاندان میں پیدا ہوا‘ وہاں بارہ بہن بھائی تھے۔ جب وہ تیرہ برس کا ہوا تو اسے اپنا سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ گھر کے حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ اب اسے تیرہ سال کی عمر میں ہی کمانے پر لگ جانا تھا۔ وہ سکول چھوڑ کر کنسٹرکشن مزدور لگ گیا۔ وہاں کام نہ بنا تو کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے لگا۔ پھر ایک فیکٹری میں نوکری تلاش کر لی۔ پھر ریلوے سٹیشن پر مزدوری کرنے لگا۔ وہاں بھی بات نہ بنی تو اس نے کاٹن بروکر بننے کا فیصلہ کیا۔ وہاں ناکام ہوا تو وہ سکول میں استاد لگ گیا۔ ان دنوں ٹائپ رائٹرز ٹیکنالوجی عام ہو رہی تھی‘ تو اس نے سوچا کیوں نہ وہ ٹائپ سیکھ لے کہ چند پیسے اس سے کما لے گا؛ تاہم وہ دس انگلیوں کی بجائے صرف دو انگلیوں سے ہی ٹائپ کرنا سیکھ سکا ۔ اور تو اور اس نے برسوں بعد شملہ میں وائسرائے کی سٹڈی میں بیٹھ کر ہندوستان کی تقسیم کا جو پلان ٹائپ کیا‘ وہ بھی دو انگلیوں سے کیا تھا۔ اسے انڈین انتظامیہ شملہ میں کلرک کی نوکری ملنے کی وجہ بھی یہ دو انگلیاں ہی تھیں‘ جن کی مدد سے وہ ٹائپ کرتا تھا۔

جب 1929ء میں اسے شملہ میں نوکری کا پروانہ ملا تھا تو وہ شملہ جانے کے لیے دہلی پہنچا۔ وہاں اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے پاس کرائے اور دیگر اخراجات کے جو پیسے تھے وہ راستے میں کسی نے چرا لیے ہیں۔ وہ اب خالی جیب کھڑا تھا۔ نہ وہ شملہ جا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے گھر واپس۔ نوجوان وی پی مینن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ اسی اثنا میں اس کی نظر ایک بزرگ سکھ پر پڑی۔ نوجوان مینن اس کے پاس گیا اور اپنی ساری کتھا اسے سنائی کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا تھا۔ شملہ میں اس کی نوکری کا سوال تھا۔ مینن نے سکھ بزرگ سے کہا کہ اگر وہ اسے پندرہ روپے قرضہ دے سکیں تو وہ شملہ جا کر تنخواہ سے واپس جس ایڈریس پر کہے گا وہاں بھجوا دے گا۔ اس بزرگ سکھ نے جیب سے پندرہ روپے نکالے اور مینن کو دے دیے۔ مینن نے ان سے ایڈریس پوچھا تو وہ سکھ بولا کہ نہیں‘ تم میرے ساتھ ایک وعدہ کرو‘ مرتے دم تک جب بھی کوئی ایماندار انسان تم سے مدد مانگے گا تم اس کی اسی طرح مدد کرو گے جیسے میں تمہاری کر رہا ہوں۔ یہ پیسے تم پر مرتے دم تک قرض ہیں جو تم نے لوٹاتے رہنا ہے۔

برسوں بعد جب وی پی مینن فوت ہوا تو اس سے چھ ہفتے پہلے اس کے بنگلور میں واقع گھر کے باہر ایک فقیر نے آواز لگائی، تو مینن نے اپنی بیٹی کو بلایا اور اسے کہا: میرا بٹوہ لائو۔ اپنے بٹوے سے اس نے پندرہ روپے نکالے اور بیٹی کو کہا: جائو فقیر کو دے آئو۔ وہ مرتے دم تک اپنا قرض واپس کرتا رہا تھا۔

ان پندرہ روپوں کی مدد سے شملہ پہنچ کر جس محنت اور ذہانت سے وی پی مینن نے نوکری میں عروج پایا وہ اپنی جگہ ایک ایسی کہانی اور ایسا واقعہ تھا جو اس سے پہلے کبھی سروس کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ جب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہو رہے تھے اور انگریز یہاں سے بوریا بستر لپیٹ رہے تھے تو اس وقت وی پی مینن صرف اٹھارہ برس کی سروس کے بعد شملہ میں ریفارم کمشنر بن چکا تھا۔ یہ سب سے بڑا عہدہ تھا جس پر کسی انڈین کو لگایا گیا تھا۔ اس سے پہلے انگریز ہی اس عہدے کو سنبھالتے آئے تھے۔ اور وہ پہلا انڈین تھا جس نے نہ صرف لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعتماد جیت لیا تھا بلکہ بڑی حد تک وائسرائے ہند کی شفقت اور مہربانی بھی جیت چکا تھا۔

وہی وی پی مینن اس وقت وائسرائے کے پاس موجود تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے وی پی کو کہا کہ نہرو سے ملاقات کے بعد اب آج رات اسے اس سارے پلان کو دوبارہ لکھنا ہو گا‘ جس کی بنیاد پر انڈیا کو آزادی ملے گی۔ وائسرائے نے اسے رات تک کا وقت دیا تھا جبکہ مینن اپنا کام سورج غروب ہونے سے پہلے مکمل کر چکا تھا۔ ایک تیرہ سال کے لڑکے نے‘ جس نے سکول چھوڑ کر مزدوری شروع کی تھی اور اپنا سروس کیریئر اس نے ٹائپنگ سے شروع کیا تھا، چھ گھنٹے دفتر میں بیٹھ کر پورا پلان ڈرافٹ کیا تھا۔ اس کے سامنے ہمالیہ کی پہاڑیاں تھیں جن پر وہ وقفے وقفے سے نظریں ڈال لیتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ وہ ایک ایسا پلان ڈرافٹ کر رہا ہے جس نے دنیا کے نقشے کو بدل دینا ہے۔

جب سارا پلان سامنے آیا تو اس میں سے بنگال اور حیدر آباد دکن جیسی ریاستوں کو آزاد ملک بنانے کا پلان نکال دیا گیا تھا۔ طے پایا کہ ملک صرف دو بنیں گے۔ 565 ریاستوں اور راجوں کو ایک ہی آپشن دیا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کو جوائن کر لیں۔ پلان ڈرافٹ کرنے کے بعد وی پی مینن کا کام ختم نہیں ہوا تھا بلکہ دراصل شروع ہورہا تھا۔ نہرو، سردار پٹیل اور مینن اب لارڈ مائونٹ بیٹن کو ان ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن دراصل سردار پٹیل کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے یا ڈیل کو نبھا رہا تھا کہ اسے ہندوستان کی باسکٹ میں سب پھل چاہئیں تھے۔ (اس ڈیل پر پھر لکھوں گا)۔ مطلب پٹیل کو ساری ریاستیں ہندوستان میں چاہئے تھیں۔

بہت سارے راجوں کے لیے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کی دستاویزات پر دستخط کرنا قیامت سے کم نہ تھا۔ سنٹرل انڈیا کے ایک راجے کے سامنے جب یہ دستاویزات رکھی گئیں اور اس نے جونہی دستخط کیے اس کے کچھ دیر بعد اس کا دل کام کرنا چھوڑ گیا۔ دھول پور کے رانا نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا: آپ کے انگریز آبائواجداد اور ہمارے آبائواجداد کے درمیان 1765ء میں جو الائنس ہوا تھا وہ آج ختم ہو رہا ہے۔ ایک اور راجہ‘ جس کی ساری زندگی گوروں کو ڈائمنڈ پیش کرتے گزری تھی، الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد وی پی مینن کے گلے لگ کر زاروقطار روتا رہا تھا۔ آٹھ راجوں نے اکٹھے پٹیالہ کے دربار ہال میں ایک عالی شان تقریب‘ جس کا اہتمام سر بھوپندر سنگھ نے کیا تھا‘ میں دستخط کیے۔ بعد میں ایک راجہ نے کہا: اس تقریب میں یوں لگتا تھا جیسے وہ سب شمشان گھاٹ آئے ہوئے ہیں۔

کچھ راجے مزاحمت کر رہے تھے۔ جوں جوں پندرہ اگست قریب آتی جا رہی تھی ان تینوں کا راجوں پر دبائو بھی بڑھ رہا تھا کہ وہ جلد فیصلہ کریں۔ جہاں کانگریس پارٹی موجود تھی ان ریاستوں میں سردار پٹیل نے اپنے ورکرز کو کہا کہ وہ مظاہرے شروع کریں تاکہ راجوں پر دبائو بڑھایا جائے۔ اوڑیسہ کے مہاراجہ کو ہجوم نے اپنے محل کے اندر محصور کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس وقت تک نہیں نکلنے دیا جائے گا جب تک وہ دستاویزات پر دستخط نہیں کرتا۔ ایک ریاست کے طاقتور وزیر اعظم کے منہ پر مظاہرین میں سے ایک نے چاقو مار دیا تھا۔

صدمے کے شکار وزیراعظم نے فوراً الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔ ان تمام حربوں کے باوجود چند ریاستیں ایسی تھیں جن کے راجے مہاراجے اور وزیر اعظم سردار پٹیل، لارڈ مائونٹ بیٹن اور وی پی مینن کا کھیل کھیلنے کو تیار نہیں تھے۔ ان میں سے ایک جودھ پور ریاست کا نوجوان راجہ بھی تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا تھا۔ نوجوان راجہ کو اپنی تمام تر انسانی کمزوریوں کے باوجود جلدی نہیں تھی۔ اس نے جیسل میر ریاست کے راجہ کے ساتھ مل کر ایک پلان بنایا کہ انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے اور آرام سے بھارت اور پاکستان میں سے اس کے ساتھ ملنا چاہیے جس میں ان کا زیادہ فائدہ ہو۔

ان دونوں نے ایک سیکرٹ پلان بنایا کہ انہیں پہلی ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کرنی چاہیے۔ ایک خفیہ پیغام جناح صاحب کو بھیجا گیا۔ جودھ پور کے راجہ نے دہلی میں ایک خفیہ ملاقات کا پلان بنایا۔

اب جودھ کا راجہ محمد علی جناح کے سامنے بیٹھا پوچھ رہا تھا کہ اگر جیسل میر اور جودھ پور ریاستیں پاکستان کے ساتھ مل جائیں تو انہیں بدلے میں کیا ملے گا؟

محمد علی جناح اور راجہ جودھ پور جب خفیہ معاملات طے کر رہے تھے تو انہیں علم نہ تھا کہ ان کی اس خفیہ ملاقات کی خبر وائسرائے تک پہنچ چکی ہے اور وی پی مینن اس راجے کو پکڑنے کیلئے وائسرائے ہائوس سے گاڑی لے کر نکل چکا ہے۔

وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن اور پٹیل کو اندازہ تھا کچھ راجے بات نہیں مان رہے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ محمد علی جناح سے رابطے میں تھے تاکہ بہتر ڈیل لے کر اپنا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ اس لیے وہ سب جناب جناح کے ملاقاتیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

ا گرچہ جودھ پور کے راجہ نے اپنے تئیں رازداری سے کام لیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ پتہ نہیں چلے گا‘ وہ جناح سے مل رہا ہے‘ لہٰذا وہ دونوں راجے جناح سے ملنے کے بعد کانگریس والوں کو چیک کریں گے کہ وہ اس سے بہتر کیا ڈیل دے سکتے تھے۔

اسی لیے دونوں راجوں نے قائداعظم سے پوچھا: اگر جیسل میر اور جودھ پور ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کریں تو انہیں کیا ملے گا؟ راجہ جودھ پور اس لیے بھی پاکستان کو جوائن کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ اس نے کچھ شوق پال رکھے تھے‘ جیسے جہاز اڑانا، جادو سیکھنا اور رقص دیکھنا۔ اسے خطرہ تھا کانگریس کی سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر اسے یہ شوق ہندوستان میں پورے نہیں کرنے دیں گے‘ لہٰذا اسے لگ رہا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونا بہتر رہے گا۔

قائد اعظم نے منہ سے کچھ نہیں کہا۔ اپنے قریب رکھی میز کی دراز سے ایک سفید کاغذ نکالا‘ راجہ جودھ پور کے سامنے رکھ دیا اور بولے: اس پر جو شرائط لکھنی ہیں لکھ دو‘ میں اس پر دستخط کر دوں گا۔ قائد اعظم کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ انہیں اپنی حریف پارٹی کانگریس کے خلاف دو ایسی ریاستیں مل رہی تھیں‘ جن کے راجے خود ان سے رابطہ کر رہے تھے۔ وہ ہر شرط ماننے کو تیار ہو گئے تھے اور اسی لیے سفید کاغذ سامنے کر دیا کہ وہ جو چاہیں اس پر لکھ دیں۔

دونوں راجے توقع نہیں کر رہے تھے کہ انہیں ایسا بلینک چیک پیش کیا جائے گا۔ فوری طور پر ان کے ذہن میں کچھ نہ تھا کہ انہیں قائد اعظم سے کون سے مطالبے کرنے چاہئیں۔ انہوں نے سوچا کہ وہ واپس ہوٹل جا کر آرام سے ان شرائط پر غور کریں گے‘ جو انہیں قائد اعظم سے منوانی چاہئیں۔ جودھ پور کا راجہ اپنے تئیں بڑا مطمئن ہو گیا کہ چلیں اس کی جیب میں ایک بلینک چیک تو آ گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ کانگریس کی لیڈرشپ سے کیا بارگین کر سکتے ہیں یا پھر انہیں پاکستان سے ہی سب مرضی کی شرائط منوا کر نئے ملک کو جوائن کر لینا چاہیے‘ جہاں سب کچھ ان کی مرضی کا ہو گا اور ان کی موجودہ زندگی اور لائف سٹائل کو کوئی خطرات نہیں ہوں گے۔

یہ سب کچھ سوچ کر راجہ نے قائد اعظم سے کہا کہ اسے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے اور وہ پھر ان سے رابطہ کرے گا۔ قائد اعظم سے ہاتھ ملا کر وہ دونوں باہر نکلے اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اتنی دیر میں وی پی مینن ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ مخبری ہو چکی تھی کہ دونوں راجے قائد اعظم سے مل رہے ہیں۔ وی پی مینن کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ انہیں فوری طور پر وائسرائے ہائوس لے جائے۔

جونہی ایک راجہ ہوٹل میں داخل ہوا تو اس کی نظر وی پی مینن پر پڑی۔ مینن آگے بڑھا اور بولا: ایمرجیسی ہوگئی ہے‘ وائسرائے ہند نے اسے فوراً اپنے گھر پر بلایا ہے۔ راجہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وائسرائے ہند اور وی پی مینن کو یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ وہ قائد اعظم سے مل آیا ہے‘ لہٰذا اس نے سوچا‘ وائسرائے ہند سے ملنے میں کیا ہرج ہے‘ اور ویسے بھی کون وائسرائے ہند سے ملنے سے انکار کرسکتا تھا۔

راجہ کو لے کر وی پی مینن فوراً وائسرائے ہائوس کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں وائسرائے ہائوس پہنچے تو وی پی مینن نے راجہ کو ویٹنگ رومن میں بٹھایا اور خود لارڈ مائونٹ بیٹن کو ڈھونڈنے نکل گیا۔ وہ مختلف کمروں میں وائسرائے کو تلاش کرتا رہا لیکن وہ اسے کہیں نہ ملا۔ آخرکار اس نے وائسرائے ہند کو واش روم میں جا تلاش کیا جہاں وہ پانی کے ٹب میں لیٹا ہوا تھا۔ وی پی مینن کے کہنے پر وائسرائے نے کپڑے پہنے اور وہ نیچے ویٹنگ روم میں بیٹھے جودھ پور کے شہزادے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وائسرائے نے گفتگو شروع کی اور بولا کہ آج اگر اس کا (راجہ کا) باپ زندہ ہوتا تو یقین کرو وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیتا۔

وائسرائے کا اشارہ اس کی ضد کی طرف تھا کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا کہ اس نے کس کو جوائن کرنا ہے۔ وائسرائے نے نوجوان راجہ کو کہا کہ جودھپور ایک ہندو ریاست ہے اور وہ محض اپنے ذاتی مفادات محفوظ کرنے کے نام پر اپنی رعایا کو پاکستان کے ساتھ ملا رہا ہے؟ وائسرائے ہند نے اس عمل کو خود غرضانہ قرار دیا۔ وائسرائے کو علم تھا کہ یہ نوجوان راجہ اس وقت پوری ریاست اس لیے دائو پر لگانے پر تل گیا ہے کہ اسے ذاتی فائدہ چاہیے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر وائسرائے ہند نے نوجوان راجہ کو کہا کہ وہ فکر نہ کرے‘ وہ (وائسرائے) اور وی پی مینن مل کر سردار پٹیل کو کہیں گے کہ وہ راجہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھے اور تمہارے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔

یہ کہہ کر وائسرائے اٹھ کر چلا گیا۔ اس نے باقی کا کام وی پی مینن کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ اب اس سے جو لکھت پڑھت کرانی ہے کرا لے۔ جب راجہ کے سامنے دستاویز رکھی گئی تو اس نے جیب سے ایک غیرمعمولی فونٹیں پین نکالا جو اس نے اپنی ایک چھوٹی سی جادوگر فیکٹری میں تیار کرایا تھا۔ جب راجہ اس کاغذ پر دستخط کر چکا تو اس نے اس فونٹین پین کو گھمایا اور اس کے اندر سے ایک چھوٹا سا پستول نکل آیا۔ نوجوان راجہ نے فوراً وہ پستول وی پی مینن پر تان لیا اور کہا: میں تمہاری دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔ تم مجھے ڈرا نہیں سکتے۔

شور شرابہ سن کر مائونٹ بیٹن فوراً نیچے اترا تو اس نے نوجوان راجہ کو فونٹین پین میں چھپا پستول وی پی مینن پر تانے ہوئے دیکھا۔ مائونٹ بیٹن جنگ عظیم دوم لڑ چکا تھا‘ لہٰذا اس کے لیے یہ نظارہ خوفناک نہ تھا۔ اس نے راجہ سے وہ پستول چھین کر اپنے پاس رکھ لیا۔

مزے کی بات ہے کہ جب مائونٹ بیٹن لوٹ کر لندن گیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک کلب ہے‘ جس کا نام Magic Circle ہے۔ یہ ایک ستائیس سالہ جادوگر کے نام پر قائم کیا گیا تھا‘ جو جوانی ہی میں انتقال کر گیا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اس کلب کا ممبر بن گیا۔ وہ خود بھی جادو سے محظوظ ہوتا تھا لہٰذا اس نے اس فونٹین پین میں چھپے پستول کو وہاں جادو کے طور پر استعمال کیا اور وہ میجک سرکل کا الیکشن جیب گیا۔ بعد میں مائونٹ بیٹن نے راجہ جودھ پور کا وہ پستول اس کلب کو دے دیا کہ وہ اپنے سرکل میوزیم میں رکھ دے؛ تاہم جب مائونٹ بیٹن کا 1979ء میں آئرلینڈ میں قتل ہوا تو وہ پستول نما فاونٹین پین اس کی فیملی کو دے دیا گیا۔ برسوں بعد دو ہزار تیرہ میں فیملی نے وہ تاریخی پین نیلام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی لاگت سات ہزار ڈالر لگائی گئی۔

خیر تین دن بعد وی پی مینن نے باقاعدہ الحاق کی دستاویزات تیار کی اور راجہ جودھ پور کے محل گیا‘ جس پر ایک اداس اور افسردہ راجہ نے دستخط کر دیے۔ جب ایک دفعہ دستخط ہو چکے تو راجہ نے سوچا: جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب وہ الحاق کو انجوائے کرے گا۔ نوجوان راجہ نے مینن کے ساتھ ایک پارٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مینن وہاں رکنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ یہ راجہ کی فرمائش تھی کہ وہ الحاق کی خوشی میں پارٹی کرے گا۔

مینن کو خوشی تھی کہ اس نے ہندوستان کے لیے بڑا معرکہ مار لیا تھا۔ سردار پٹیل کو دینے کے لیے اس کے پاس تحفہ تھا۔ اس نے دو بڑی ہندو اکثریت والی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے بچا لیا تھا۔ اس کے دہلی میں ”پراسرار سورس‘‘ نے جناح اور جودھ پور کے راجہ کی خفیہ ملاقات کی مخبری کرکے ہندوستان پر احسان کیا تھا۔ اگرچہ وہ فوری طور پر دہلی روانہ ہونا چاہتا تھا لیکن نوجوان راجہ نے ضد کی کہ وہ فوراً واپس نہیں جا سکتا۔ پہلے جشن ہو گا۔ پرانا محاورہ ہے کہ راج ہٹ، بال ہٹ تے تریمت ہٹ۔ (جب شہزادہ، بچہ اور عورت کسی ضد پر اترے ہوں تو پوری کرنی پڑتی ہے) چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی وی پی مینن رک گیا تاکہ وہ جشن میں شریک ہو سکے۔ لیکن وی پی مینن کو اندازہ نہ تھا کہ جشن کے نام پر نوجوان راجہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے۔

(جاری ہے…………….)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے