کشمیر پر پشتون حکمرانو ں کے 67 سال

مقبوضہ جموں وکشمیرپرمسلمانوں نے 400سال سے زائد حکمرانی کی جن میں 67سال براہ راست کشمیر افغانیوں کے تسلط میں رہا اوران67 سالوں میں 31پشتون گورنرزنے کشمیرکی ثقافتی اور معاشرتی زندگی پر وہ اثرات چھوڑے جوصدیوں بعدبھی وہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

 

 

17ویں اور18ویں صدی کے دوران دیگرمسلمانوں کی طرح پشتونوں نے بھی بڑی تعداد میں کشمیرکے مختلف علاقوں خصوصاًشمالی وجنوبی حصوں کپواڑااور انت ناگ میں کئی بستیاں قائم کیں اوربتایاجاتاہے کہ آج بھی وہاں پر پشتون اپنی روایات پشتون ولی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔

 

کشمیریونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر گلشن مجیداپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ کشمیر کے مختلف حصوں میں مقیم پشتون آج بھی اپنی جداگانہ حیثیت کو قائم رکھے ہوئے ہیں قبائلیوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں جرگوں سے اپنے مسائل نمٹاتے ہیں اوردوسرے قوموں کی بجائے اپنے قبیلوں کے درمیان لڑ کیوں بیاہتے ہیں ان کے مطابق کشمیر میں پشتون سنی مسلمان ہیں اوران کی بڑی تعدادمقامی طور پر سکیورٹی اداروں کے علاوہ پولیس اور دیگرمحکموں میں بھرتی ہیں۔

14ویں صدی کے آخر میں خاندان غلاماں کے بعد اسلام وادی کشمیرکی دہلیز تک پہنچالودھیوں کے بعدمغلوں نے اسے مکمل طور پر قبضے میں لیا مغل بادشاہ اورنگزیب ہمیشہ کشمیر کے وادیوں کاذکر کرتے تھے تاہم بعدمیں مغل حکمرانوں کی نااتفاقی کے باعث یہاں بغاوت نے سراٹھالیاجب1748میں احمدشاہ ابدالی نے افغانستان سے آکر ہندوستان میں مرہٹوں کے خلاف جنگ کااعلان کردیا تو اس دوران انہوں نے شاہ ولی اللہ کے کہنے پر کشمیرپربھی لشکرکشی کردی اورکشمیر کو فتح کرنے کے بعدعبداللہ خان عشق عکسی کو کشمیر کاپہلا گورنرمقررکیا

1752سے 1819تک 31افغان گورنر براہ راست کابل سے اعلامیہ لیکر گورنری کی مسندپرکشمیرمیں بیٹھے رہے ان67سالوں میں افغانیوں نے کشمیرمیں نکاسی آب اورآبپاشی کانظام متعارف کرایا شیرگڑھی محل اورسری نگرکے قریب اہم پلوں کی تعمیرکے علاوہ شال انڈسٹری کو متعارف کرایا جواس وقت کشمیرکی سب سے بڑی پہنچاہے ،افغانیوں کے اس دورمیں براہ راست وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت ہوتی تھی اور یہاں کے بیشترلوگ تجارت سے متعارف ہوئے۔

عبداللہ خان عکسی کے بعد عبداللہ خان کابلی ،نورالدین بامی زئی ،بلندخان بامی زئی،جان محمدخان ،لعل محمدخٹک،خرم خان،فاخراللہ ،امیرخان جمال شیر،کریم دادخان،آزادخان،مرادخان ،میردادخان،ملاغفارخان،جمعہ خان الکوزئی ، میرہزارخان،رحمت اللہ خان ،کفایت خان،ارسلاخان،محمدخان جوان شیر،شیرمحمدخان،عبداللہ خان ،وکیل خان اورعطاءمحمدبامی زئی کے بعد افغان حکمران دوست محمدکے چھوٹے بھائی عظیم خان براہ راست کشمیرکے گورنررہے۔

اس دوران کابل کے حکمرانوں کے مابین شدیداختلافات پیداہوئے جس سے سکھ حکمرانوں نے خوب فائدہ اٹھایاافغان حکمران دوست محمدکے بھائی فتح محمدکی مقامی لوگوں نے آنکھیں نکال دیں اس دوران پشاور اورکشمیر پر افغان حکمرانوں کی گرفت کافی ڈھیلی ہوگئی1819میں دوست محمدخان اپنے بھائی عظیم خان کےساتھ دوبارہ پشاورآیا تاکہ وہ سکھ حکمران رنجیت سنگھ سے پشاورکودوبارہ لےکرافغان حکمرانوں کا جھنڈالہرائے لیکن جنگ سے ایک رات قبل دونوں بھائی کے مابین لڑائی ہوئی اوراگلی صبح افغانیوں کومیدان میں شکست کاسامناکرناپڑابعدازاں دوست محمدکے دوسرے بھائی سلطان محمد نے رنجیت سنگھ سے ساز بازکرلی اورپشاورکاحکمران بن گیااس دوران برصغیرپرقبضے کےلئے انگریزوں نے سکھوں اور مسلمانوں کے ساتھ علاقائی سطح پر معاہدے کئے کئی معاہدے سکھوں اورمسلمانوں کے مابین بھی ہوئے عظیم خان جوکہ آخری سات سالوں کےلئے کشمیرکاگورنرتھا رنجیت سنگھ کو سالانہ تین لاکھ کی ادائیگی بھی کرتاتھاتاکہ سکھ کشمیرپرحملہ نہ کرے تاہم بعدازاں سکھوں نے محسوس کیاکہ اب انہیں افغان حکمرانوں کی ضرورت نہیں اس لئے انہوں نے کشمیر پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔

کہاجاتاہے کہ افغانیوں کے حکمرانی کے دوران جہاں کئی اچھے کام کئے گئے وہی کشمیریوں پر بے تحاشاٹیکس بھی لگایاگیا ایک دورمیں جب کابل کو رقوم کی اشدضرورت تھی توانہوںنے کشمیر کے پھلدار درختوں اور مقامی کاشتکاروں پر 25فیصد ٹیکس عائد کردیا جس کے خلاف مقامی طو رپر بغاوت کا علم بھی بلندہوا اورکہاجاتاہے کہ 1794سے1796تک تین سالوں کے دوران سات افغان گورنرتبدیل کئے گئے1819میں جب افغانیوں کی نااتفاقی کے باعث کشمیر پر رنجیت سنگھ نے اپناجھنڈالہرایا توکچھ ہی عرصے بعد پشاوربھی افغانیوں کے ہاتھوں سے نکل کر براہ راست سکھ حکمرانوں کے قبضے میں آگیا صدیاں گزرجانے کے باوجودجموں وکشمیرمیں مقیم پشتون کشمیری ہونے کے باوجوداپنے آپ کو افغان یا پشتون کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور باقاعدگی کےساتھ اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں پشاوراورکابل میں بنائے گئے پشتوگیتوں پر ناچتے ہیں۔تاریخ دان گلشن مجید کے مطابق کشمیرمیں سب سے زیادہ پشتونوں کاتعلق یوسفزئی اوراچکزئی قبائل سے ہے اسے علاوہ بڑی تعداد میں آفریدی اور مہمندبھی یہاں آبادہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے