مودی کا کشمیرسے ہزارسالہ غلامی کا انتقام (2)

1953 میں کشمیر کے مقبول ترین لیڈر، شیخ محمد عبداللہ ، جن کے ساتھ یہ سارے وعدے کیے گئے تھے ،کو کشمیر کی وزارت عظمی سے برطرف کرکے جیل بھیج دیا گیا اور تمام وعدے ، آئینی گارنٹی اور سلامتی کونسل کی قرار داروں کےبرخلاف 1954 میں صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ ہندوستانی آئین کی متعدد دفعات کو یہاں نافذ کیا گیا – دفعہ 370 کے تحت ہندوستانی آئین کی متعلقہ دفعات کو مناسب رد و بدل، ترامیم اور کمی بیشی کے ساتھ انتظامی حکم کے تحت نافذ کیا جاسکتا تھا جس کو پارلیمنٹ یا کشمیر اسمبلی کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی تھی –

یہ ایک شرارتی انتظام ہے جس کے تحت حکومتی دھونس دباؤ کے تحت ہندوستان من مانی کرتا رہا اور ریاستی حکمران اپنی نوکری چاکری کے چکر میں ریاستی خود مختاری کا سودا کرتے رہے – اگر اس کا اطلاق پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی کے ذریعہ ہوتا ، تو من مانی کرنا مشکل ہوتی- اس کے بعد آج تک ہندوستانی آئین کی 395 دفعات میں سے 286 اور مرکزی حکومت کے 97 اختیارات مین سے 95 کا اطلاق کیا گیا ہے -باقی ماندہ میں سے صرف وہ حصہ رہتا ہے جو باقی ہندوستانی ریاستوں کی تشکیل و تحلیل اور اندرونی امور سے متعلق ہے اس کا اطلاق ریاست میں نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس حد تک ریاست کا اپنا آئین تھا- 5 اگست 2019 کے انتظامی حکم کے تحت اب ہندوستانی آئین کا وہ حصہ بھی ریاست پر نافذ ہوگا-

5 اگست کا صدارتی حکم ہندوستان کی کشمیر کے اسلامی تشخص اور مسلمانوں کے خلاف چوتھی بڑی واردات ہے -پہلی 27اکتوبر 1947 پر فوج کے ذریعہ قبضہ ، دوسرا 1953 میں ہندوستان نواز مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کو ہتھکڑیاں ڈال کے گرفتار کرنا، تیسری 1987 کے انتخابی نتائج کو بدل کر لوگوں کے احتجاج کو سات لاکھ فوجی اتار کر قتل لو گوں غارت کی بنیاد ڈالنا اور چوتھی 5 اگست کو کشمیر نام کی ریاست کو ختم کر کے زبر دستی دلی سے باندھنا – مودی اور اس کی جماعت کا مسلمانوں اور مسلمان ریاست کے خلاف نفرت اور غیظ و غضب کا اظہار ہے –
بی جی پی در اصل آر ایس ایس کی کی ایکس یٹنشن ہے ،جس کا منشور ’’ ہندو ہندوستان ‘‘ ہے – اس نے آج تک ہندوستان کے سیکولر آئین کو بھی جائز آئین تسلیم نہیں کیا اور اس کو منسوخ کر کے نیا آئین بنانے کا ارادہ رکھتی ہے –

آر ایس ایس کے نزدیک ہندوستان کے تین اندرونی دشمن ہیں، مسلمان ، عیسائی اور کمیونسٹ -1950 سے اس کے منشور میں دفعہ 370 کو ختم کر کے کشمیر کو مکمل تحلیل کرکے تین حصوں (Trifurcation)میں تقسیم کرنا شامل تھا، لداخ کو یو نین ٹیریٹری، جموں اور کشمیر کو الگ الگ دو صوبے بنانا – اگر تو اس تقسیم کا مقصد وادی چناب اور پیر پنجال کو وادی کے ساتھ شامل کرکے خود مختاری کے ساتھ الگ ریاست بنانا ہوتا تو اس سے مسئلہ حل ہو سکتا تھا ، لیکن ان کا مقصد کشمیر کا تشخص ختم کرنا تھا -اس پر پاکستان نے کبھی احتجاج نہیں کیا جبکہ آزاد کشمیر حکومت نے جب لبریشن سیل بنایا تو ہندوستان نے باضابطہ احتجاج کیا- اسی جماعت نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا اور آج تک اس پر فخر کرتے ہیں –

5 اگست کے حکم کے تحت ریاست پر نافذ کیےگئےپرانے سارے آئینی انتظامی احکامات منسوخ کرکے ہندوستان کا آئین مکمل طور نا فذ کیا گیا ہے – منسوخ ہونے والے احکامات میں دفعہ 35 A بھی شامل ہے جس کے تحت ریاستی باشندوں کے حقوق و مراعات کا تعین کرنا ریاستی اسمبلی کا اختیار تھا ، کوئی غیر ریاستی شخص وہاں زمین نہیں خرید سکتا تھا ، الاٹ نہیں کرا سکتا تھا ، سرکاری نوکری اور سکالرشپ نہیں لے سکتا تھا – اس میں بھی بے شمار چھید کئے گئے تھے ،یہ دفعہ بہ ایں ہمہ مقامی تشخص کی علامت تھی – یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے دوحصے الگ الگ کرکے الگ الگ طور چلائے جارہے ہیں اور گلگت و بلتستان میں ریاستی باشندہ کے قواعد ختم کئے گئے ہیں، اس کا دفاع کرنا کتنا مشکل ہے ، اس کا ادراک صرف وہ شخص کر سکتا ہے جس کو اس کا دفاع کرنا پڑتا ہے، ان میں سے ایک میں بھی ہوں-

اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ 5اگست کے حکم کے تحت دفعہ 370 ختم کی گئی ہے -ایسی بات نہیں ہے بلکہ اس کے تحت ہی یہ حکم جاری کر کے اپنی پوزیشن اور ریاست کے ادغام کو مضبوط کرنے کا راستہ ہموار کیا-اس حکم کے تحت ہندوستانی آئین کی دفعہ 367 میں کچھ تشریحات شامل کی گئی ہیں ،جن میں اپنی مرضی کے الفاظ شامل کر کے دفعہ 370 کو ختم کرنا آسان بنایا گیا ہے ، گوکہ یہ آئین کی بقیہ دفعات کے صریحآ خلاف ہے، لیکن قوانین اور حالات کی تشریح ہمیشہ طاقت ور کی مرضی کے تابع ہوتی ہے خواہ وہ ملکی قانون و حالات ہوں یا بین الاقوامی – اس میں دو ایسی غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر منطقی تشریحات شامل کی گئی ہیں، جن میں سے ایک کے تحت ریاستی حکومت کا مطلب گورنر ہوگا اور دوسری آئین ساز اسمبلی کا مقصد ریاستی اسمبلی ہوگا – اس سے دفعہ 370 کو منسوخ کیےبغیر اسے بے اثر بلکہ عملی طور عضو معطل بنا دیا ہے –

اسی روز یعنی 5 اگست کو ہی راجیہ سبھا میں ریاست کی تشکیل نو، Reorganisation of state کا بل پیش کیا گیا ،جو اسی دن پاس ہوا اور دو دنُ بعد لوک سبھا نے بھی پاس کردیا جو اب پارلیمنٹ کا ایکٹ بن گیا ہے – اس ایکٹ کے تحت پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے علاقے بھی یو نین ٹیریٹری میں شامل کیےگئے ہیں ،جو اس سے پہلے اس واشگاف طریقے سے نہیں تھے – ہندوستان کے زیر قبضہ ریاست کے دو حصے کرکے دونوں کو الگ الگ طور براہ راست مرکز کے کنٹرول میں لایا گیا ہے جس کو ہندوستانی آئین میں union territory کہتے ہیں – لداخ والی یونین ٹیریٹی پر براہ راست مرکز کی حکومت ہوگی، اس کی اپنی قانون ساز اسمبلی نہیں ہوگی ، بلکہ مرکز کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت لیفٹینٹ گورنر چلائے گا -جبکہ جموں اور کشمیر کے دو صوبوں کو ملاکے الگ یونین ٹیرٹری بنایا یا گیا ہے جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی جس کو لاء اینڈ آرڈر کے علاوہ قانون سازی کے وہی اختیارات حاصل ہو ں گے، جو باقی ہندوستان ریاستوں کو حاصل ہیں -لیکن اس کی حکومت کے اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہوں گے جو کونسل آف منسٹرز کی سفارش پر استعمال کرے گا – ریاست کے ان دونوں حصوں کا گورنر ایک ہی ہو گا -اس قانون کے تحت کشمیر میں نافذ بہت سے مقامی قوانین منسوخ یا ان میں ترمیم ، بہت سے مرکزی قوانین کا دائرہ کار بڑھایا گیا ہے ۔ہندوستان میں اس سے قبل سات یونین ٹیریٹریز تھیں جن میں سے صرف دہلی اور پانڈی چری کی اپنی اسمبلی ہے-
ریاست جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو یو نین ٹیریٹریز بنائے جانے کے بعد اب نوہو گئی ہیں –

یہ ایک مہینے یا ایک سال کی نہیں بلکہ کئی سالوں پر محیط مشق ہے – یونین ٹیریٹری ایک ادنی ٰقسم کا انتظامی درجہ ہے جو مودی حکومت اور اس کی جماعت کا مسلمانوں کے خلاف غصہ اور نفرت کا اظہار ہے – یہ علاقہ جو 1846 سے ایک نیم خود مختار ملک کی حیثیت سے چلا آیا ہو ، اس کی تاریخ ، تہذیب ثقافت ، حیثیت، نام , تشخص ، شناخت ختم کر کے تو ہین آمیز طور اس کے حصے بخرے کئے گئے ، یہ ایک بیمار اور نفرت سے بھرے ذہن کا عکاس ہے- -یو نین ٹیرٹری کی مثال میں ایک ڈویژن کی طرح سمجھتا ہوں جس کو بڑھا کے صوبہ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ضلع یا ڈسٹرکٹ کونسل نہیں بنایا جا سکتا – آئینی اور قانونی اصلاحات لوگوں کی بہتری کے لئے ، ان کی ڈیمانڈ ، مطالبے اور ان کے نمائندوں کے زریعہ عمل میں لائی جاتی ہیں ، فوج کے سائے میں مخلوق خدا کو محبوس کرکے ، کرفیو نافذ کرکے ، دنیا سے رابطہ ختم کرکے نہیں – یہ تو ڈاکہ ہے ، شب خون اور سفاکی ہے-

یہ عمل بھی ہندوستانی آئین کی دفعہ تین کے خلاف ہے جس میں واضح طور درج ہے کہ اگر کسی صوبے کا رقبہ گھٹایا یا بڑھایا جائے ،وہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی رائے لینے کے بعد کیا جا سکتا ہے جبکہ ریاست میں اسمبلی ہی نہیں تھی ، فراڈ کر کے صدارتی حکم نامہ میں گورنر کو اسمبلی کی تعریف میں لاکر یہ بل راجیہ سبھا پھر لوک سبھا سے پاس کرایا گیا – کشمیر کے آئین میں بھی ایسی ہی پابندی تھی جس کو تو صدارتی حکم کے ذریعہ بے اثر کر دیا گیا ، ہندوستان کے اپنے آئین کی بھی دھجیاں بکھیر دی گئیں –

ریاست کی تشکیل نو یا Reorganisation کا ایکٹ نہ صرف سلامتی کونسل کی قرار دادوں ، ہندوستان کی آزادی کے ایکٹ، ہندوستانی لیڈروں کے وعدوں بلکہ ہندوستان کے اپنے آئین کے خلاف ہے -ہندوستان کے آئین کی دفعہ 253 کے تحت ہندوستان بین الاقوامی معاہدوں اور فیصلوں کو پارلیمنٹری قانون کے تحت نافذ کرنے کا پابند ہے جبکہ گزشتہ ساٹھ سال سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور اب ان کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے -ہندوستان کی موجودہ کارروائی نے ہندوستانی آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا ہے -ہندوستانی سپریم کورٹ پر اگر ہندو قوم پرستی سوار نہ ہوئ تو اس عمل کو درج بالا آئینی صورت حال کے پیش نظر یقیناً کالعدم قرار دے گی- اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے دوران آئینی ترامیم کو بھی کالعدم قرار دیا تھا-

(جاری ہے ۔ ۔ ۔)

پہلی قسط یہاں پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے