سانحہ بابڑہ بازار اور پاکستان کے 70 سال

قیام پاکستان کے72سال گزرجانے کے باوجود اقتدارکے سنگھاسن پر براجمان سیاسی جماعتیں اقتدار کی طوالت کیلئے ہمیشہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہیں جو12اگست1948ءکو چارسدہ کے قریب بابڑہ کے مقام پراس وقت کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے سرخ پوشوں کے ساتھ کیاتاہم سرخ پوش اس واقعے کے حقیقی اسباب کے بجائے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کےلئے سانحہ بابڑہ کے متعلق مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔سرخ پوشوں کا کہناہے کہ بابڑہ میں 700سے زائد مظاہرین کو اس وقت کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان کی ہدایات پر ماراگیاجب کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سانحہ بابڑہ میں صرف26افرادجاں بحق ہوئے ہیں۔

موجودہ حالات میں ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی مرکزی قیادت آصف علی زرداری ،نوازشریف،شاہدخاقان عباسی،مریم نواز،فریال تالپور،حمزہ شہبازاوردیگرکئی اہم رہنماءبدعنوانی کے الزامات میں پابندسلاسل ہیں تاہم1948ءمیں بدعنوانی کے بجائے اپوزیشن اراکین خصوصاًسرخ پوشوں کو ملک سے غداری کے جرم میں گرفتارکیاجاتاتھا 3 جون 1947 کے پلان کے مطابق جب برصغیرپاک و ہندکی تقسیم کافیصلہ ہواتو21جون1947ءکو باچاخان نے ڈاکٹرخان سید،ولی خان اوردیگررہنماﺅں کے ساتھ بنوں میں ایک جلسے کاانعقادکیا اس موقع پر ایک متفقہ قرار داد کی بھی منظوری دی گئی، ”تاریخ صوبہ سرحد “کے منصف محمدشفیع صابر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں اس قراردادکے متن میں کہاگیاتھاکہ پشتون نہ پاکستان چاہتے ہیں نہ ہی ہندوستان، بلکہ وہ آزادپشتونستان چاہتے ہیں اوراسی قرارداد کی منظوری کے بعد سرخ پرشوں کے اس مجمع نے ریفرنڈم کے بائیکاٹ کااعلان کیا،

1947ءمیں قیام پاکستان کے بعدسرخ پوشوں اورمسلم لیگیوں کے مابین تلخ کلامی بڑھ گئی سرخ پوشوں کے مطابق اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ نے22اگست1947ءکو صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا)میں ڈاکٹرخان کی حکومت ختم کردی اوراپوزیشن لیڈر خان عبدالقیوم خان کو وزیراعلیٰ بنایاگیا اس دوران سرخ پوشوں نے قیوم خان کی حکومت کےخلاف احتجاج شروع کیا جس کے نتیجے میں15جون1948ءکو باچاخان کو دفعہ40کے تحت گرفتارکیاگیا،باچا خان کی گرفتاری کے بعد سرخ پوشوں کی احتجاج میں شدت آگئی اور مظاہروں کا سلسلہ صوبے بھر میں پھیل گیا ، محمدشفیع صابر معروف قومی کارکن افضل خان بنگش کاحوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 12اگست1915ءکو حاجی صاحب ترنگزئی نے انگریزوں کےخلاف جہاد کااعلان کیاتھا عین اسی واقعے کے 33سال بعد بابڑہ کاواقعہ رونماہوا ،

تاریخ صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں محمد صابر شفیع سالار امین جان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ باچاخان کی رہائی کے لئے 12اگست کو جلسے کے انعقادکافیصلہ کیا گیا جس کی کامیابی کیلئے 15دن مہم چلائی گئی،جلسے کے روز سرخ پوشوں کی کمان کرنل عبدالرﺅف کے ہاتھ میں تھی، جلوس جب چارسدہ سے نکل کر بابڑہ کے مقام پر پہنچا تو وہاں پہلے سے مورچہ زن پولیس نے جلوس پر فائرنگ کردی اور سب سے پہلے سرخ پوش سپین ملنگ کو نشانہ بنایا جسکے بعد لاشوں پر لاشیں گرتی گئیں اور450سے زائد افراداس ریاستی جبر میں مارے گئے ۔صوبائی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت کے صوبہ سرحدکے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے 19اکتوبر کو ایوان میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جنوبی اضلاع سے فقیراےپی نے پاکستان کے خلاف بغاوت کاعلم بلندکیا تودوسری طرف باچاخان نے چارسدہ اور صوابی کے عوام کو حکومت کے خلاف اکسایا ،

باچاخان نے اس وقت حکومت کو ریت کی دیوارکہہ کر واضح کیاتھاکہ صوبائی حکومت ایک ہی ٹکرسے پاش پاش ہوجائےگی جس کے بعد باچاخان کو گرفتارکرلیاگیا ،قیوم خان مزیدبتاتے ہیں کہ سرخ پوشوں نے بعدمیں واضح کیاکہ وہ حکومت سے ٹکر لے گی جس کے بعد کچھ لوگوں کو گرفتارکیاگیا ہمیں اطلاع ملی کہ 2ہزارسرخ پوش نکل آئے ہی ہیں جوپہلے سے نافذ دفعہ144کوتوڑنے کی کوشش کررہے ہیں ،چارسدہ سے نکلنے کے بعد جلوس کے شرکاءکی تعدادبڑھتی گئی جو بابڑہ پہنچنے پر10ہزار ہوگئی،بابڑہ میں تعینات پولیس نے جلوس کے شرکاءکو احتجاج ختم کرنے کیلئے منت سماجت کی لیکن وہ لوگ بات ماننے پرتیار نہیں تھے،

پولیس سے تلخ کلامی کے بعد مشتعل سرخ پوشوں نے انتظامی افسران پرفائرنگ کردی جس سے معاملہ مزید بگڑ گیا اور پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے جوابی فائرنگ کرناپڑی جس کے نتیجے میں چند جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان سٹڈی سنٹرپشاوریونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹرفخرالسلام جو”(Khyber Pakhtunkhwa a Political History 1901-1955)کے مصنف بھی ہیں ،نے اپنی کتاب میں سانحہ بابڑہ کاذکرکیاہے انہوںنے کتاب واقعے بعد جاری ہونیوالی سرکاری پریس ریلیز کی نقل بھی دی ہے جوسول انتظامیہ نے اس موقع پر جاری کیا تھا ، ڈاکٹرفخرالسلام لکھتے ہیں کہ ایسے واقعات میں انتظامیہ ہلاک شدگان کو کم اورمظاہرین کی تعداد کو ہمیشہ زیادہ بیان کرتے اس لئے جب تک مکمل تحقیق نہ ہو،واقعے جانی نقصان کی اصل صورتحال سامنے نہیں آسکتی،

ڈاکٹرفخرالاسلام کہتے ہیں کہ سانحہ بابڑہ میں 6 سے لیکر700 تک کے سرپوشوں کے مارے جانے کے دعوے موجود ہیں لیکن اس سے متعلق کوئی مصدقہ دستاویزموجود نہیں ،سانحہ بابڑہ سے متعلق تجزبہ کار ڈاکٹرخادم حسین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طورپر واقعے کی ایف آئی آر میں سانحہ بابڑہ میں مرنے والوں کی تعداد 50سے زائد بتائی گئی لیکن عدالت کو 26افراد کی فہرست فراہم کی گئی حالانکہ واقعے کے بعد جاں بحق 602افرادورثاءسے جرمانہ وصول کیا گیا ، ڈاکٹرخادم حسین کے مطابق واقعے سے متعلق مختلف ذرائع سے ہم نے تحقیقات کی اور اس بات پر متفق ہوگئے کہ 650کے قریب افراد سانحہ بابڑہ میں مارے گئے،ڈاکٹر خادم حسین بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے 70سال بعد بھی حکمرانی کی ریت نہیں بدلی،جو لوگ بھی سماجی انصاف ،جمہوریت ، خودمختاری یا انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں ان کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے ،70سال قبل بابڑہ میں گولی چلائی گئی تھی آج غداری اور بدعنوانی کے الزام میں سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

محمدشفیع صابراپنی کتاب تاریخ خیبرپختونخوامیں لکھتے ہیں کہ سرخ پوش رضاکاروں کاجلوس جب چارسدہ سے نکل کر بابڑہ کی جامع مسجدکے قریب پہنچا تواس وقت ضلع پشاور کے اسسٹنٹ کمشنر گل محمدخان کے حکم پر پولیس نے جلوس کے شرکاءپر فائرنگ شروع کی اور کافی دیرتک گولیاں چلتی رہیں اور اس وقت کے سرکاری اعداد و شمار میں مرنے والوں کی تعداد 26بتائی گئی ہے۔اس وقت کی صوبائی حکومت کے مطابق سرخ پوشوں نے جان بوجھ کر دفعہ144کی خلاف ورزی کی تھی۔قومی کارکن افضل بنگش بعدازاں اپنے مضمون میں لکھتے کہ بابڑہ میں جان دینے والے سب سے ہی غریب تھے ایک بھی سرمایہ دار، جاگیر دار یابڑالیڈرشہید نہیں ہوا، بعدمیں خدائی خدمت گاروں نے سانحہ بابڑہ سے متعلق عبدالقیوم خان کیخلاف مقدمہ درج کرایا تاہم1953میں اس وقت کی عدالت نے خان عبدالقیوم خان کومقدمے سے بری کردیا۔

عدالت میں اس وقت کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جمع کی گئی دستاویزات میں کہاگیاہے کہ سانحہ بابڑہ میں صرف26افراد جاں بحق ہوئے جنہوں نے حکومتی عملداری کو چیلنج کیاتھا۔تاہم تاریخ کی کتابوں میں بتایاجاتاہے کہ خان عبدالقیوم خان نے محکمہ داخلہ کے ذریعے سرخ پوشوں پرحتیٰ کہ بابڑہ میں مرنے والوں پر بھاری بھرکم جرمانے عائد کردیئے اورچارسدہ ،صوابی اور مردان کے سرخ پوشوں سے واقعے میں پولیس کی جانب سے چلائی گئی گولیوں کے بدلے 200،200روپے جرمانہ بھی وصول کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے