مسئلہ جموں کشمیر،تین راہیں اورایک خواب

حقیقت مسئلہ جموں کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی سنجیدہ بات سننے کے لیے تیار نہیں ۔ ایک بڑی تعداد عدم دلچسپی کا شکار ہے ، ایک خاص تعداد تصاویر اور بیانات کے ذریعے ہندوستان کو دھمکیاں دے کر حاضری لگا رہی ہے ۔

5 اگست 2019 کو ہندوستانی حکومت نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر پر مستقل قبضہ کر کے اسے مستقل اپنا حصہ بنا لیا، اس کے بعد جو کچھ اس طرف سے سامنے آیا اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آدھی ’’شہ رگ‘‘ دینے کا فیصلہ ہو چکا ۔

دھمکیاں دینے سے مسئلہ کشمیر حل ہوتا تو 72سال میں حل ہو چکا ہوتا ، مسلح طاقت کا استعمال اگر حکمت عملی تھی تو 5اگست 2019کے بعد وہ نظر نہیں آئی۔ اگر سفارتی اور خارجی لحاظ کے ذریعے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تو سلامتی کونسل کا اجلاس ہوتا ، ملت اسلامیہ کے سہارے کا جو خواب دکھایا گیا تھا ، وہ بھی اگست 2019میں ہی چکنا چور ہو گیا ۔

سری نگر کو بذریعہ طاقت چھڑانے کی حکمت عملی بھی فارغ، جہادی تنظیموں کی مشق بھی شاید اب ماضی کی غلطی شمار ہو گی ، سفارتی حمایت بھی قابل ذکر نہیں اس صورتحال میں اب صرف تین راستے ہیں ۔

1۔ پاکستان اپنی فوج سری نگر میں داخل کر دے، جہادی تنظیمیں لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین فوج کا ساتھ دیں اور ہندوستان کی فوج کو گرداسپور کے اس پار بھیج دیا جائے ، ایسا ممکن ہے تو ٹھیک، اگر نہیں تو یہ آپشن ختم ۔

2۔ ہندوستان کے فیصلے کو تسلیم کر لیا جائے ، ہلکی پھلکی مزاحمت اور لائن آف کنٹرول پر کچھ عرصہ تک جاری چپقلش کے بعد اس حد تک محدود جنگ کہ عالمی طاقتیں مداخلت کریں اور موجودہ کنٹرول لائن کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کر دیا جائے ۔

3۔ آزادکشمیر کی حکومت کو پوری ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتے ہوئے اسلام آباد میں پہلا سفارت خانہ قائم کیا جائے اور ریاست کے لوگ اپنا مقدمہ خود عالمی برداری کے سامنے پیش کر سکیں۔

ان تین راستوں کے علاوہ مجھے تو کم از کم کوئی آپشن نظر نہیں آتا سوائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ، جن پر گزشتہ 72سال میں عمل نہیں ہو سکا۔

آپشن نمبر ایک پاکستان اپنی فوجیں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل کرے، ہمارا خیال ہے پاکستان کو ایسا کرنا چاہیے ، دنیا کی نمبر ایک فوج کو اپنی شہ رگ چھڑانی چاہیے، حافظ سعید، فضل الرحمان خلیل اورصلاح الدین کے جو دعوے گزشتہ 20سال میں سنے گئے، یہ وقت ان پر عمل درآمد کا ہے ۔

اگر پاکستانی حکمران ریاست جموں کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو بھارت کے چنگل سے چھڑانے کے لیے فوج کو حکم نہیں دیتے تو یہ ریاست کے لوگوں سے دھوکہ اور زیادتی ہو گی ، پاکستانی جھنڈوں کو اپنا کفن بنانے والوں کو یوں بے یارو مددگار چھوڑنا جرم عظیم ہے ، یہ وقت ان کی مدد کا ہے اور اس وقت بزدلی دکھانا یا انہیں تنہا چھوڑنا ظلم عظیم ہے ۔

2۔ ہندوستان کے فیصلے کو تسلیم کر لیا جائے ، گرچہ ہم بحیثیت کشمیری ہندوستان کے کسی ایسے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ، اگر پاکستانی حکمرانوں کی مجبوری ہے جیسا کہ 5اگست 2019 کے بعد محسوس ہو رہا ہے تو یہ ایک ایسا آپشن ہے جسے استعمال کیا جا سکتا ہے ، مجھے یقین ہے آزادکشمیر سے اس کے خلاف کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں ہو گی، زیادہ سے زیادہ چند آزادی پسند میدان میں نکلیں گے، تقسیم کشمیر نامنظور کے نعرے لگائیں گے، انہیں طاقت کے زور پر کچل دیا جائے گا، دس ،بیس، تیس ،پچاس ،سو کو مار بھی دیا گیا تو کوئی نہیں پوچھے گا ، کچھ فیس بک واٹس اپ پر زمین آسمان ایک کریں گے، کچھ گالیاں دیں گے ، کچھ گھر بیٹھ کر انقلاب برپا کریں گے، میدان میں کوئی بھی نہیں اترے گا۔ حالیہ صورت حال گواہ ہے کہ تقسیم کشمیر ہو گئی ایک ہزار آدمی سڑکوں پر نہیں آیا۔

3۔تیسرا آپشن ایک ایسا خواب ہے جو کے ایچ خورشید نے دیکھا، سب کو سنایا اور آج کل فاروق حیدر سب کو سنا رہے ہیں ، اس آپشن کے خواب دیکھنے والے اس شخص کی طرح ہیں ،جو گراونڈ کے باہر بیٹھ کر مطالبہ کر رہا ہو کہ اسے کھلاڑی تسلیم کیا جائے ، سو اس صورت حال میں سنجیدگی سے اگر بات کی جائے تو یہی ہے کہ یہاں سے اس پار کے لوگوں کے حق میں اب بیانات تصاویراور بھارت کو دھمکیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ انہیں جو خواب دکھائے گئے تھے وہ سب جھوٹے تھے ۔

رہی بات آزادکشمیر حکومت کی کہ اس کو تسلیم کرنا ۔یعنی کے ایچ خورشید کا خواب ۔۔۔۔۔ اس پر تو بات کرنا ہی گوارا ہی نہیں۔ سو نمبر ایک نہ نمبر تین آپشن ، بس نمبر 2 یعنی وہی ”اُدھر تم اِ دھر ہم ۔۔۔” بس اتنی ہاتھا پائی کہ ریاست کے لوگ مطمئن ہو جائیں ، جو پاگل مزاحمت کریں گے ، انہیں ٹھوک دیا جائے گا کیونکہ یہ مسئلہ انسانوں کا نہیں زمین کا ہے اور زمین ہم اہل جموں کشمیر سے زیادہ قیمتی ہے۔ زمین ہونی چاہیے ، لوگ تو کہیں سے بھی لا کر آباد کیے جا سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے