قصّہ ہاروت و ماروت کا

کشمیر کی سیاست زوروں پر ہے۔ ہر وہ شخص جو غلیل بھی نہیں چلانا جانتا ہندوستان کو منہ توڑ جواب دینے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس کشمیر کے بحث و مباحثہ سے لوگوں کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری اور اسٹریٹ جرائم سے ہٹ گئی ہے۔

چلئے یہ باتیں حکمرانوں کو تلخ گزرتی ہیں۔ آج آپ کو ہاروت و ماروت فرشتوں کا واقعہ سناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو سزا کے طور پر زمین پر بھیج دیا تھا ان کو جادو اور طلسم آتا تھا اور لوگوں کو ان کی مرضی سے وہ جادو اوراس کے ذریعے بُری باتیں سکھاتے تھے ، لاتعداد لوگوں کو گنہگار بنا دیا تھا۔ سورۃ البقرہ آیت 102 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اور لوگ ان واہیات، جہالت کی باتوں میں لگ گئے جو حضرت سلیمان ؑ کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور حضرت سلیمان ؑ نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کی بات کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے پیچھے بھی لگ گئے جو شہر بابل میں دو فرشتوں یعنی ہاروت و ماروت پر اُتری تھیں۔

اور وہ دونوں ان کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نا کہہ دیتے کہ ہم تو ذریعہ آزمائش ہیں تم کفر میں نا پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا جادو سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتااور فائدہ کچھ نہ دیتا اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں یعنی سحر و منتر وغیرہ کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصّہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا وہ بُری تھی کاش وہ اس بات کو جانتے‘‘۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ مولانا جلال الدین رومیؒ کیا کہتے ہیں:

’’ مشہور ہاروت اور ماروت جیسوں نے تکبر کی وجہ سے زہر آلود تیر کھایا ہے۔ ان کو ان تقدس پر گھمنڈ تھا۔ لیکن قضائے الٰہی کے شیر کے آگے دودھ دینے والی بھینس جیسے انسان کو کیا اطمینان ہوسکتا ہے۔ اگر وہ شیر حق کے مقابلے میں سو تدبیریں کرے تب بھی نر اور شیر اس کے جوڑ جوڑ کے ٹکڑے کردے گا۔آندھی کو دیکھو کہ بلند متکبر درختوں کو اکھاڑ دیتی ہے۔ لیکن حقیر چھوٹی گھاس پر احسان کرتی ہے۔ گھاس کی عاجزی اور کمزوری پر ہوا نے رحم کیا۔ اس لئے اے دل تو اپنے غرور میں اپنی قوت کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بات نہ کر۔ آخر دیکھ کہ درخت کی شاخ کے گھنے اور تگڑے پن سے کلہاڑا کب ڈرتا ہے۔

آخر کو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔ لیکن کمزور عاجز بتوں پر اپنے آپ کو نہیں مارتا۔ سوائے مغرور و سخت کے اپنی دھار نہیں چلاتا۔ یا ایندھن کی لکڑی کے گھٹے کے گھنے پن سے آگ کو کیا ڈر ہے یا بکریوں کے ریوڑ سے قصاب کب بھاگتا ہے جو انہیں مارنا شروع کردے۔ یا معنی کے سامنے صورت کی کیا حقیقت آسمانوں تک کو اس کے متصرف حقیقی نے اوندھا کر رکھا ہے۔ اب دیکھو کہ سانس کا اتار چڑھائو اس کا اندر جانا اور باہر نکلنا سوائے روح کی خواہش کے اور کس وجہ سے ہے۔ وحی اس پر متصرف ہے۔وہ روح اس سانس کو (سانس لیتے اور خارج کرتے وقت کبھی) ’’ج‘‘ بناتی ہے کبھی ’’حا‘‘ اور ’’و‘‘ کبھی اس کو باعث صلح اور زندگی بناتی ہے۔کبھی لڑائی اور مارنے کا سبب کبھی اس کو داہنی طرف لے جاتی ہے۔

کبھی بائیں طرف کبھی اس کو پرمسرت چمن بنا دیتی ہے کبھی تکلیفوں کا کانٹا۔اسی طرح اللہ پاک نے پانی کو فرعون پر خوفناک خون بنا دیا۔ اور اسی طرح اللہ نے عذاب کے وقت اس ہوا کو قوم عاد پر اژدھے کی طرح بنا دیا تھا۔ پھر اسی ہوا کو (غزوہ احزاب میں) مومنوں پر صلح اور رعایت اور امن بنا دیا تھا۔ دین کے شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے فرمایا ہے۔ کہ معنی (یعنی موثر حقیقی وہ اللہ ہی ہے) اور معانی کا لامحدود سمندر رب العالمین ہے۔ اس بحر رواں میں زمینِ آسمان کے سارے طبق ایک تنکے کی طرح بہتے چلے جا رہے ہیں۔

اس بحر حقیقت میں زمین و آسمان کے تنکے کی طرح حملے اور رقص، خود اپنی قوت سے نہیں ہیں۔ بلکہ پانی کے موجزن ہونے کے وقت پانی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ (حق کے حق میں مسلسل موجزنی کی وجہ سے ہوتے ہیں) چونکہ کشمکش سے اس کو سکون دینا چاہتا ہے۔ اس لئے تنکے کو نفس مطمٔنہ کے ساحل پر پھینک دیتا ہے۔ پھر جب اس کو ساحل سے (عشق کی) موجوں کی جگہ لائے گا۔ تو موج عشق اس کے ساتھ وہ کرلے گی جو آگ گھاس سے کرتی ہے۔ اس (نار عشق کی) بات کا آخر نہیں ہے اس لئے اے جوان پھر سے ہاروت و ماروت کے قصے کی طرف چل۔جب دنیا کی مخلوق کی بدکاری اور گناہ اور ہاروت و ماروت کے زمانے کی قومیںدیکھتیں تو وہ عیب ان پر ظاہر ہوجاتا اور اس وقت وہ غصہ، افسوس سے ہاتھ چبانے شروع کردیتے۔ لیکن آنکھوں سے انہیں اپنا خود کا عیب نظر نہ آتا۔

یہ کچھ ایسی ہی بات تھی کہ ایک بدصورت نے اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھا اور بجائے اپنا عیب دیکھنے کے الٹا آئینہ (یعنی مرد حق) سے منہ پھیر لیا۔ اور اس پر غصہ کیا جوشخص اپنی خودبینی میں گرفتار ہے، جب وہ کسی کا گناہ دیکھتا ہے تو اس کے اپنے اندر دوزخ کی سی آگ نمودار ہوتی ہے۔ اس تکبر کو (اور دوسرے کو ذلیل سمجھنے کو) وہ دین کی حفاظت بتاتا ہے۔ اور اپنے اندر بے دین نفس کو نہیں دیکھتا۔ دینی حمیت یہ نہیں ہوا کرتی، دینی حمیت کی علامت تو دوسری ہے۔ یہ حمیت تو رحمت ہے۔ اس حمیت سے تو دنیا سرسبز ہوتی ہے۔ اے فرشتو! یہ پاکدامنی جو تمہارے جسم میں ہے۔ وہ میرے بچانے اور حفاظت کرنے کا اثر ہے۔ اس پاکدامنی کو تم میری جانب سے سمجھنا خبردارخبردار اپنی جانب سے نہ سمجھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ تم خود پرست ہوجائو۔ اور شیطان غالب آجائے ۔

میں نے دراصل ہاروت و ماروت کا قصّہ اسلئے بیان کیا ہے کہ آجکل بھی بہت سے عیار لوگ ہاروت و ماروت بن گئے ہیں اپنی میٹھی میٹھی باتوں یعنی جنتر منتر سے لوگوں کو بہکا کر غلط کام کرارہے ہیں اور ان کو مصیبت میں پھنسا دیتے ہیں یعنی مروادیتے ہیں۔ آجکل بعض ایسے جادوگر روز ہی ٹی وی پروگراموں میں نظر آتے ہیں اور آپ کو دھوکہ دینے اور پھنسانے میں لگے رہتے ہیں۔ ’’ہوشیار رہئے ایسے لوگوں سے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے