اور جمہوریت بچ گئی…!

جمہوریت بچانے کے دو ہی طریقے معروف ہیں!

سیونگ دی ڈیموکریسی کا پہلا طریقہ جمہوریت کی ماں برطانیہ نے ایجاد کیا‘ جبکہ اس مادرِ جمہوریت کے نا خلف بچے طریقہ نمبر دو کے پروڈیوسر اور پیش کار ٹھہرے۔ برطانوی جمہوریت بچانے والے پہلے طریقے کی تین قسطیں پچھلے چار سالوں میں سامنے آئیں۔

قسط نمبر ایک UK کے چیف ایگزیکٹیو، ڈیوڈ کیمرون نے پیش کی جس کا نام مشہورِ زمانہ ”پانامہ کرپشن لیکس‘‘ میں آیا تھا۔ کیمرون نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اپنا سورس آف انکم بتایا۔ اس سورس آف انکم کی منی ٹریل برطانوی تفتیشی اداروں کے سامنے جا رکھی۔ پھر پی ایم شپ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور وزارت عظمیٰ کی سیٹ خالی کر دی۔ دنیا کی اولین جمہوریت کو بچانے کے لیے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنا عہدہ چھوڑ کر گھر چلا گیا۔

دوسری قسط انگلش لیڈی پرائم منسٹر تھریسا مے نے چلائی۔ پہلے بریگزٹ کامیاب بنانے کے لیے تین مرتبہ تھریسا مے نے اپنا مقدمہ برطانیہ کے دارالعوام (House of Commons) کے سامنے رکھا۔ تینوں مرتبہ تھریسا مے کو پارلیمنٹ میں منہ کی کھانی پڑی۔ پارلیمنٹ بھی ایسی طاقت ور کہ جیسے وزیر اعظم اُس کے سامنے کوئی شے ہی نہیں ہوتا‘ نہ ہی حکومتیں انگلش پارلیمنٹ کی روایات کے سامنے کوئی دم مار سکتی ہیں۔

لندن کی ایک اُداس شام 10 ڈاؤننگ سٹریٹ‘ جہاں پی ایم ہائوس واقع ہے، ایک چھوٹا روسٹرم لا کر رکھا گیا جس کے سامنے دنیا بھر کے پریس کو دعوت دی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد دراز قامت تھریسا مے اپنے میاںکے ساتھ اس کوارٹر نما پی ایم ہائوس سے باہر نکل آئیں۔ یہ جوڑی 10 ڈاؤننگ سٹریٹ یعنی گلی میں آ کر کھڑی ہو گئی‘ جہاں تھریسا مے نے اپنی وزرات عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ وطن کا نام لیتے ہوئے تھریسا مے کی آواز بھرّا گئی اور آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس طر ح وہ بھی وزیر اعظم ہائوس خالی کر کے اپنے پیا کے ساتھ پھر سے پیا گھر سدھار گئیں۔

جمہوریت بچانے کی تیسری قسط برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے بریگزٹ کے معاملے پر اپنی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کے موقف کے سامنے بے بس ہونے کے بعد چلائی۔ بورس جانسن کو وزیرِ اعظم بنے ہوئے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود بورس جانسن نے 10 ڈاؤننگ سڑیٹ سے بوریا بستر لپیٹ کر پندرہ اکتوبر 2019 کو قبل از وقت (Mid term) الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا۔ اس موقعہ پر اپنے خطاب میں بورس جانسن نے کہا کہ جمہوریت بچانے کے لیے اُس کے پاس نئے الیکشن کروانے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔

بورس جانسن کے اس اعلان کے 24 گھنٹے کے اندر اندر برطانوی پارلیمنٹ نے اپنے وزیر اعظم کے اس اعلان کو مسترد کر دیا‘ سب سے پہلے اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن نے؛ چنانچہ برطانوی پارلیمانی روایت کے عین مطابق قبل از وقت انتخابات کے مسئلے پر دارالعوام میں قرارداد آ گئی‘ جس پر فوراً ووٹنگ ہوئی۔ قرارداد کے حق میں 298 ووٹ پڑے جبکہ وزیر اعظم کی تجویز کے حق میں صرف 56 ووٹ ڈالے گئے۔ اس طرح بورس جانسن کو اس کی اپنی پارٹی نے بھی ووٹ نہ دیا اور اسے شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ قوم کے سامنے، پارلیمان کے سامنے بلکہ ساری دنیا کے سامنے۔ بورس جانسن کی سیاسی جماعت برٹش کنزرویٹو پارٹی کے وہ ارکان اسمبلی جنہوں نے بورس جانسن کو ووٹ نہیں دیا‘ ان کو کسی طرف سے بھی لوٹا ہونے کا طعنہ نہیں ملا۔ بلکہ درست فیصلہ کرنے پر انہیں شاباش ملی۔ اس سوال پر کہ انہوں نے کنزرویٹو پارٹی کا ڈسپلن توڑا ہے تو ان کا مستقبل کیا ہے‘ سب نے بیک آواز کہا کہ اگلے الیکشن میں اپنی پارٹی سے ٹکٹ نہیں مانگیں گے نہ ہی اس ٹکٹ پر آئندہ الیکشن میں حصہ لیں گے۔

بالکل اسی طرح کی ایک مثال سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی motions پر ہمارے ہاں بھی سامنے آئی۔ یکم اگست 2019 کے دن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا‘ دونوں کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ ذرا وہ منظر تو خیال شریف میں لائیے جب 5000 روپے بڑھی ہوئی تنخواہ کے لالچ میں چینل اور ادارہ چھوڑنے والے عین اصول پرست اور ضمیر کی آواز کے مینارۂ نور قسم کے ماہرین اس ووٹنگ کے نتیجے کو لوٹاکریسی قرار دے رہے تھے۔ اکثر کی اصول پرستی کی لائیو کوریج دیکھنی ہو تو کسی مغربی ملک کے سفارت خانے کے فنکشن میں چلے جائیں۔ یہ تو محض جملۂ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی جمہوریت کی ماں‘ برطانیہ میں جمہوریت بچانے کی کوششوںکے بارے میں۔ اب آئیے ذرا جمہوریت کی اس ماں کے پاکستانی بچے جمہورے کی طرف۔ یہاں جمہوریت بچائو مہم شاعر کے خیال میں کچھ یوں ہے:
ان عقل کے اندھوں کو اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

چلئے، ہم بھی اس اُلٹ پھیر کا حصہ بن جائیں اور تازہ ترین جمہوریت بچائو اقدام سے بات شروع کر لیتے ہیں۔ صرف اور صرف جمہوریت کو بچانے کیلئے مہران کے حکمران ٹولے کے معاشی ترجمان المعروف Front man نے ایک عدد جمہوریت بچائو جمہوری درخواست گزاری۔ درخواست نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 25 کی منشا کے مطابق تھی۔ یہ درخواست جمہوریت کی عین جمہوری تراش خراش کرنے والے ادارے کے چیئرمین کو جا پہنچی۔ اس درخواست میں صرف اور صرف جمہوریت بچانے کی استدعا کی گئی؛ چنانچہ سائل نے لکھا کہ اس نےOmni بے نامی اکائونٹس میں کرپشن اور گڑبڑ گھوٹالہ کیا ہے‘ اور منی لانڈرنگ کے جرم کا ارتکاب بھی۔ پھر تحریری طور پر بھی لکھ کر دے دیا کہ وہ اس لوٹ مار میں سے صرف 10 ارب 66 کروڑ روپے پاکستانی سکہ رائج الوقت قومی خزانے کو واپس کرنے کیلئے تیار ہے۔

یہ واپسی صرف ایک مقدمے کے چھوٹے سے head میں ہو رہی ہے۔ ابھی ساڑھے تین سو کمپنیاں باقی ہیں۔ ان کے ذریعے کتنی دولت ”لُٹو تے پُھٹو‘‘ کروائی گئی۔ اس کی تفصیل ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں پیش کر رکھی ہے۔ ان بے نامی کمپنیوں کی کل تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب ہے۔ وہ دن دور نہیں‘ جب ان ساری جمہوری خدمات میں ہونے والی کمائی میں سے پلی بارگین کی مزید درخواستیں سامنے آئیں گی۔ شکر ہے، بچہ جمہورا المعروف جمہوریت بچائو مہم میں 10 ارب 66 کروڑ تک کامیاب ہوئی اور جمہوریت بچ گئی۔ یہ تو ابھی Omni خاندان کے صرف ایک ادنیٰ کارپرداز سے رقم کی واپسی ہے۔ ایک اور جانب سے بھی درخواست تیاری کے مراحل میں ہے۔ وہ ہے مشہور عالم ”ٹی ٹی خاندان‘‘ جس کے سارے اثاثے، تمام دلچسپیاں، ہر طرح کے ڈاکٹرز، بچے، ان کے بچے اور اُن کے بچوں کے رشتہ دار سب سات سمندر پار جمہوریت بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

جمہوریت بچانے کا ایسا ہی تیسرا دلدادہ، دو دن پہلے پاکستانیوں نے ایک کوسٹل شہر میں جا پکڑا۔ پوائنٹ بلینک کیمرے پر پُرانی جینز اور گٹار کے روپ میں 77 سالہ تجربہ کار سنیاسی باوا۔ جس نے ایک سٹروک میں ورلڈ بینک سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگوایا۔ اس ٹیکے کو عرفِ عام میں ریکوڈک ٹیکہ کہتے ہیں۔ آج کل مزید ڈالروں کی خوشبو میں وہ اپنے آقائوں کی دربانی کرنے اکثر بیرونِ ملک پایا جاتا ہے۔
اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری
یہ سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں
یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں
یہ ہنس کر لہُو قوم کا چوستے ہیں
خدا کی جگہ خواہشیں پُوجتے ہیں
یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں
یہ لہجہ میں سرمائے کے بولتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے