’’اس‘‘ نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!

مجھے تقریر کرنے کا بہت شوق ہے تاہم میں سامعین کی داد سے بے نیاز تقریر کے دوران سننے والوں کے تاثرات کی پروا کبھی نہیں کی، میں نے یہ بات یونہی نہیں کہی، بلکہ تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں، میں نے کئی دفعہ دردناک موضوع پر بہت پُرسوز تقریر کی، مجھے لگا سامعین زار و قطار رو رہے ہیں، بعد میں کچھ احباب نے بتایا کہ وہ دراصل ہنس رہے تھے، مگر مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں تو اپنی دردمندی کا اظہار کر رہا تھا اور ہنسنے والے اپنی سنگدلی کا مظاہرہ کر رہے تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب میں تقریر کے دوران آنکھیں اور کان بند کر لیتا ہوں، اس کیفیت میں مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرا تعلق بھی تیسری دنیا کے حکمران طبقوں سے ہے۔

میں نے تقریر میں یِدِطولیٰ حاصل کرنے کے دوران ایک نئی تکنیک بھی روشناس کرائی اور وہ یہ کہ میں سامعین میں سے کسی ایک کو اپنی تقریر کے دوران کچھ اسی طرح ’’انوالو‘‘ کرتا ہوں جس سے میری باتوں کی کریڈیبلٹی میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے، اس حوالے سے ایک بار تلخ تجربہ بھی ہوا مگر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ میں دراصل تاریخ کے حوالے سے ایک بڑے مجمع سے خطاب کر رہا تھا، اس دوران میں نے 1990ء کا ایک واقعہ بیان کیا اور اسٹیج پر تشریف فرما ایک معروف شخصیت حاجی نور دین کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’میں جو کہہ رہا ہوں، حاجی صاحب اس کی گواہی دیں گے‘‘۔ جس پر اس نے اپنی اہمیت جتلانے کے لئے اقرار میں سر ہلایا، پھر میں نے 1967ء کے ایک واقعہ میں انہیں اپنا گواہ بنایا اور انہوں نے اس کی بھی تصدیق کر دی لیکن جب میں نے 1939ء کے ایک واقعہ کے حوالے سے کہا ’’حاجی نور دین اس کی تصدیق کریں گے‘‘۔ تو وہ اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ’’معافی چاہتا ہوں حضرات، میں تو کیا اس وقت آپ بھی پیدا نہیں ہوئے تھے‘‘۔

اصل میں مقرر حضرات اللہ تعالیٰ کی بہت دلچسپ مخلوق ہیں۔ ان کی تقریر کا آغاز عموماً اس جملے سے ہوتا تھا ’’حضرات، میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، صرف پانچ منٹ میں اپنی بات مکمل کرکے آپ سے اجازت چاہوں گا۔‘‘ اس کے بعد دس منٹ میں صرف یہ بتاتے ہیں کہ وہ پانچ منٹ میں اپنی بات ختم کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ پھر وہ مرحلہ وار اپنی بات کہنا شروع کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے، دوسری یہ، تیسری یہ اور پانچویں تک پہنچتے پہنچتے وہ گنتی بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں، تیسری بات جو مجھے کہنا ہے۔ ان لمحوں میں حاضرین ان کے حساب کے استاد کو دل ہی دل میں کوستے ہیں کہ وہ اس کے علاوہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے۔ معاملہ یہیں تک محدود ہو تو انسان کو پھر بھی صبر آجاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک مرحلہ پر حاضرین کو ان کی تقریر کی ٹون سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات ختم کرنے والے ہیں مگر اچانک یہ صاحب ایک دفعہ پھر اسپیڈ پکڑتے ہیں اور یوں سامعین کی ساری امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔

کچھ مقرر بہت منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ وہ اسٹیج پر آکر اپنی تقریر کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں ’’حضرات، میں ناکارہ خلائق اس قابل تو نہ تھا کہ اتنے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ مجھے بلایا جاتا ‘‘۔ اور بعض سامعین اتنے سادہ لوح ہوتے ہیں کہ ان کی اس بات پر یقین کرکے ان کی تقریر سننے کی بجائے آپس میں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ کچھ مقرر اپنی تقریر کا آغاز بہت دھیمے سُروں میں کرتے ہیں اور پھر اپنی آواز کا والیم آہستہ آہستہ اونچا کرتے جاتے ہیں۔ کچھ مقرر غلطی سے اپنی تقریر کے آغاز ہی میں اپنی آواز کا والیم اتنا اونچا کر دیتے ہیں جتنا تقریر کے کلائمکس پر ہونا تھا۔ چنانچہ جب کلائمکس آتا ہے اور وہ آواز کا والیم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے گلے سے جو آوازیں نکلتی ہیں، ابھی تک انہیں کوئی مناسب نام نہیں دیا جا سکا۔ ایک علامہ میرے دوست ہیں، وہ اپنی ہر تقریر میں کہتے ہیں ’’حضرات! میری کمر میں درد ہے، گلا خراب ہے، میں حاضر تو نہیں ہو سکتا تھا مگر برادرم اشرف شاہین صاحب کے حکم کی تعمیل میں حاضر ہو گیا ہوں۔

دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے سچ کہنے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ میں نے علامہ صاحب سے کئی دفعہ عرض کیا کہ حضرت، آپ ہر جلسے میں اپنی درد کمر کا ذکر نہ کیا کریں کہ حاضرین میں کچھ بدگمان قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں، وہ بات کا بتنگڑ بنا سکتے ہیں، مگر اس سلسلے میں علامہ صاحب کی اپنی منطق ہے اور وہ یہ کہ اس طرح کی مشہوری میں کوئی حرج نہیں! اسی طرح جب میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ خود صرف سچ بولنے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟ علامہ صاحب کا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں جتنا بوجھ اٹھا سکتا ہوں، اتنے ہی کا وعدہ کرتا ہوں۔ اگر سچ پر عمل کرنے کی دعا قبول ہوگئی تو اس کی سختیاں جھیلنا تو مجھے ہی پڑیں گی؟

جس طرح پاکستان کے ہر شہری کو یقین ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل اس کے پاس موجود ہے اور اگر حکومت اس پر عمل کرے تو ایک ہفتے میں کایا کلپ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ہر مقرر خود کو عطااللہ شاہ بخاری سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں لوگ دم بخود ہو کر اس کی تقریر سنتے ہیں بلکہ یہ سارا مجمع آیا ہی اسے سننے کے لئے ہے۔ باقی مقرر تو ’’چونگھے‘‘ میں بلائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیج سے اترنے کا نام نہیں لیتا اور جب اترتا ہے تو خود کو ایک فاتح تصور کر کے مفتوحہ مجمع پر ایک لاپروائی کی نظر ڈالتا ہے۔ جلسے کے اختتام پر ہر ہاتھ ملانے والے شخص کو اپنا معتقد سمجھ کر اس کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔ حالانکہ بقول احمد فراز

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

جواباً ہاتھ ملانے والا بھی اس کی طرف دیکھتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ بونگی مار کر اب میری طرف کیا دیکھ رہے ہو؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے