موچی چاچا اور باپو

جس طر ح کوئی نسلی گھوڑا ”نعل‘‘ کے بغیر دوڑ نہیں سکتا‘ بالکل اسی طرح سے جوتی یا پاپوش کے بغیر انسان متحرک زندگی نہیں گزار سکتا۔ جو شخص ہمیں کرۂ ارض پہ چلنے پھرنے کے قابل بنانے کے لئے پہناوے بنا کر دیتا ہے‘ ان کی مرمت کرتا ہے‘ وہ موچی کہلایا۔

موچی سنسکرت زبان کے لفظ ”موچیکا‘‘ سے نکلا جس کا مطلب جوتے بنانے والا ہے۔ اپنے ہاں سطحی تاثر کے تحت لفظ موچی حقارت کی نشانی ہے‘ لیکن اگر کوئی موچی کارپوریٹ دنیا میں داخل ہو جائے تو وہ شو میکر کہلائے گا۔ بقول شورش کاشمیری ”دولت کے بھکاری، اور طاقت کے پجاری‘‘ اُسے نہ صرف انڈسٹریلسٹ کہیں گے بلکہ اُس سے رشتہ داری کرنے کو سٹیٹس سمبل اور اعزاز سمجھیں گے۔ آج میں جس موچی چاچا کی کہانی بیان کرنے لگا ہوں‘ اس نے کیپیٹل آف دی نیشن کے سب سے امیر سیکٹر میں وہ عزت پائی جس سے بڑے سے بڑا سرمایہ دار بھی محروم رہا۔ اسلام آباد کے رہائشی سیکٹروں میں سے سیکٹر F، جب کہ F سیکٹر میں سے سیکٹر F-8 ٹاپ آف دی لائن ایلیٹ سیکٹر مانا جاتا ہے۔ کئی سابق وزرائے اعظم، صدور، سرمایہ دار، بڑے انویسٹرز اور بزنس ٹائیکونز کی رہائش گاہیں یہاں واقع ہیں۔ F-8 مرکز اس کا کمرشل حب ہے‘ جس کی ناردرن سائیڈ پر پہاڑ کی جانب OPF سکول جب کہ شرقاً غرباً سٹریٹ نمبر ایک آتی ہے۔ سٹریٹ نمبر ون کے درمیان میں دائیں سائیڈ پر اذان خان شہید سکول فار بوائز ہے جب کہ بائیں طرف سیکٹر F8/3 کے پرائیویٹ بنگلوں کی قطار۔

سکول کے پہلے کونے پر جنگلی زیتون المعروف ”کَہو‘‘ کا بہت ہی پُرانا درخت ایستادہ ہے‘ جس کے ارد گرد پتھروں کا تھڑا ہے۔ درخت کا تنا اس کی سینکڑوں سال طویل عمر کی چغلی کھاتا ہے‘ جس کے نیچے بیٹھ کر امیروں کے سیکٹر کا سب سے غریب آدمی دو عشروں تک لوگوں کے جوتے مرمت کرتا رہا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پورے F 8 سیکٹر کا موچی چاچاF 8 میں رہائش سے زندگی بھر محروم رہا۔ اس عظیم بابے کی وجۂ شہرت دوہری تھی۔ ایک تو اس کا حسنِ اخلاق اور برائے نام اُجرت۔ دوسرے وہ، پھٹے پُرانے جوتے میں جوانی کے رنگ بھرنے کا ماہر تھا۔ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہائوس اور لاء آفس جانے کے لئے میں اسی گلی سے گزرتا ہوں۔ 9/10 مہینے پہلے مجھے ”کَہو‘‘ کے اس درخت کے قریب پہنچ کر عجیب جھٹکا سا لگا۔ جہاں پھولوں کے گُل دستے اور obituary کارڈز رکھے تھے۔ میں ٹھہرا اور نیچے اتر کر ”کَہو‘‘ کے قریب چلا گیا۔ پھر بات بھی سمجھ میں آ گئی۔ چاچا موچی امیروں کے جزیرے سے دائمی مہاجرت کے سفر پر چل پڑا تھا۔ کبھی نہ واپس آنے کے لئے۔ میری نظر ایک اکیلے پھول پر پڑی جس پر اِسی سکول کے ایک بچے کا میسج لکھا ہوا تھا: اپنے موچی چاچا کے نام۔ میسج پڑھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں‘ اور میں موچی چاچا کی دعائے مغفرت کی کیفیت میں اتر گیا۔
آدمی کا جسم کیا ہے، جس پہ نازاں ہے جہاں
ایک مٹّی کی عمارت، ایک مٹّی کا مکاں
یہ جو کچھ دیکھتا ہے تُو، فریبِ خوابِ ہستی ہے
تخیّل کے کرشمے ہیں، بلندی ہے نہ پستی ہے
عجب دنیائے حیرت، عالم گورِ غریباں ہے
یہ ویرانے کا ویرانہ ہے اک بستی کی بستی ہے
وہی ہم ہیں کبھی جو رات دن پھولوں میں تُلتے تھے
وہی ہم ہیں کہ تربت چار پھولوں کو ترستی ہے

چلنے لگا تو ارد گرد خاصے لوگ جمع ہو چکے تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے بچوں کو بتایا۔ وہ کہنے لگے کہ آج موچی چاچا کا سوئم ہے۔ ساتھ بتایا: ایف ایٹ اور ایف سیون کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے موچی چاچا کی وفات کی خبر گھر گھر پہنچائی۔ ان کی نماز جنازہ میں نمازیوںکی جتنی حاضری تھی‘ اس سے پہلے کبھی ایف سیکٹر کے کسی جنازے میں نہیں دیکھی گئی۔ عالمگیر شاعر اور مفکر، حضرتِ اقبال نے گویا محبت کو اسی لئے فاتحِ عالم قرار دیا۔ بجا طور پر فرمایا:
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

دس بارہ دن پہلے، کسی جنم جلی نے پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے گائنی وارڈ میں دو بیٹوں کو جنم دیا۔ پھر انہیں اس دہرِ بے نیام میں ٹھوکریں کھانے کے لئے پھینک کر نرسری سے فوراً نکل بھاگی۔ یہ واقعہ سُنا کر میری صاحب زادی ڈاکٹر خدیجہ نے کہا: اگر کوئی اچھا خاندان ایک یا دونوں بچے اڈاپٹ کرنا چاہے تو PIMS انتظامیہ انہیں خوش آمدید کہے گی۔ اسی گفتگو کے دوران باپو جی کا ذکر آ گیا یہی PIMS ہسپتال تھا۔ سال بھر پہلے میڈیکل وارڈ نمبر 6 کے کارنر روم‘ جہاں صرف دو بیڈ ہیں، میں دو نوجوان لڑکے ایک ہی خوف ناک بیماری میں مبتلا ہو کر پڑے تھے۔ اس بیماری کو ڈاکٹرز Guillian Barre Syndrome یعنی GBS کہتے ہیں جس میں مبتلا مریض کا Immune System جسم کے لئے خطرناک اینٹی باڈیز پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز فوری طور پر peripheral nervous system پر حملہ کرتی ہیں۔ بیماری کا جرثومہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی ابتدائی نشانیوں میں چلنے پھرنے میں دُشواری، اچانک گر پڑنا، آنکھوں، گلے کے مسلز کا فالج اور باڈی بیلنس کا خراب ہونا شامل ہے۔

بیماری بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم کے سارے مسلز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ دونوں نوجوانوں میں پہلا لڑکا مسلمان تھا، جسے ہسپتال لانے والے اہلِ خانہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑ کر وارڈ سے کھسک گئے تھے۔ اس مصیبت زدہ نوجوان کے سامنے والے بیڈ پہ اسی کی عمر کا لڑکا سِکھ تھا جس کے والد یعنی باپو اُس کی دیکھ بھال کرنے کے لئے رُکے ہوئے تھے۔ کئی مہینے کے تکلیف دہ علاج کے دوران باپو نے دونوں کو بیٹا سمجھ کر اُن کے علاج، خوراک اور اُنہیں اٹینڈ کرنے کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ ڈاکٹرز نے باپو کو بتایا کہ اس بیماری میں one in millions ریکوری کا چانس ہوتا ہے۔ مگر باپو مایوس نہ ہوا۔ پھر ایک دن پورے ہسپتال نے معجزہ ہوتے دیکھا۔ باپو کے دونوں مریض پہلے اُٹھ بیٹھے، پھر چلنے پھرنے لگے اور ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر چلے گئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ دونوں ایک ہی گھر میں گئے۔ ہسپتال سے ڈسچارج کے دس بارہ دن بعد، باپو دونوں بیٹے ساتھ لے کر واپس آ گیا۔ پمز ہسپتال میں ڈاکٹروں، نرسز اور وارڈ بوائز کا شکریہ ادا کرنے۔ مٹھائی کے ڈبے ساتھ لے کر۔ کہنے لگا: آپ نے دیکھا‘ مالک نے مجھے ایک بیٹا دیا تھا۔ محبت نے میرے بیٹے دو کر دئیے۔

کالم لکھنے بیٹھا تو سٹریٹ اور سکول کا نام کنفرم کرنے دو وکیل بھجوائے۔ دانیال خالد اور ولید قاضی ”کَہو‘‘ کے درخت والے تھڑے کی تصویر بھی لے آئے۔ اب یہاں بچوں نے سبز چادریں بھی رکھ چھوڑی ہیں۔ تصویر دیکھ کر مجھے عجیب سی سرشاری ملی۔ ساتھ ہی موچی چاچا کی قبر پہ اکیلے پھول کے ساتھ بچے کی لکھی ہوئی مختصر تحریر یاد آ گئی۔ بچے نے لکھا تھا ”چاچا سکول بیگ ٹوٹ گیا تو ماما سے کہہ کر نیا لے لوں گا۔ جوتے پھٹ گئے تو پھینک دوں گا مگر آپ جو گڑ والی مکئی کی روٹی لاتے تھے وہ مجھے اب کہیں سے نہیں ملے گی۔ ہم سب آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے‘‘۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں… گور پیا کوئی ہور

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے