عدالت کا سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کے خلاف مقدمے کے اخراج کا حکم

اسلام آباد کی عدالت نے سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کے خلاف درج مقدمہ خارج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

جج شائستہ خان کنڈی نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ طارق ملک کے خلاف 12 مئی 2014 کو درج کردہ ایف آئی آر نمبر 53 کو خارج کیا جائے۔

یہ مقدمہ مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے حکم پر درج کیا گیا تھا۔

سابق چیئرمین نادرا پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ کے لیے درخواست دیتے وقت دوہری شہریت کو پوشیدہ رکھا تھا۔

طارق ملک نے ایف آئی آر سے اپنا نام خارج کرانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور عدالت سے رجوع کیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ میرے حق میں آیا ہے تاہم پاکستان میں حصول انصاف کے لیے مروجہ طریق کار بذات خود ایک سزا کے مترادف ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ جن لوگوں نے ان پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کیے جو عدالت میں بھی جھوٹے ثابت ہوئے، انہیں سزا کیوں نہیں دی جاتی؟

انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ اسی وقت ختم ہو جانا چاہیئے تھا جب رواں برس فروری میں سیینئر سول جج نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔

طارق ملک، جو اس وقت اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں، نے اپنی غیر موجودگی میں درج کی گئی ایف آئی آر کو چیلنج کیا تھا اور ذاتی طور پر سینئر سیشن جج سہیل ناصر کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

سینئر سیشن جج نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طارق ملک کے خلاف اس موقع پر کس قسم کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

انہوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ وہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ ابھی تک اس کیس کی تحقیقات کیوں جاری ہیں جبکہ حکومت پاکستان نے ڈائرکٹر جنرل پاسپورٹ کے 19 نومبر 2018 کو لکھے گئے خط میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ بظاہر مدعی کی جانب سے پاسپورٹ سے متعلقہ کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔

سابق چیئرمین نادرا کے وکیل ایڈووکیٹ قوسین مفتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جب 2013 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کے موکل کے خلاف رٹ پٹیشن نمبر 4451 میں کیس ہاری تو اس نے نے جلد بازی میں غلط اور من گھڑت الزامات عائد کر دیے۔

انہوں نے عدالت کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 13 دسمبر 2013 کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ بظاہر یہ مدعی کو نشانہ بنانے کا مقدمہ نظر آتا ہے جس کے لیے مواد اکٹھا کر کے ریکارڈ پر لایا گیا۔

ہائیکورٹ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ جب انتخابی عملے نے تصدیق کے لیے کچھ کیسز بھیجے تو حکومت ایک طویل خواب غفلت سے بیدار ہو گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ بظاہر جب مدعی نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کیا تو غیر معمولی رفتار سے ایک ہی دن میں تمام ایکشن لیا گیا جو بعد ازاں خودساختہ نظر آ رہا ہے.

یاد رہے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں ملنے کے بعد طارق ملک نے جنوری 2014 میں چیئرمین نادرا کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ وہ اس وقت 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے اعلی عدلیہ اور انتخابی ٹربیونلز کی مدد کر رہے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے