ایسے لوگوں کو بھی انڈین اقدامات سے مسئلہ ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھلتا

انڈیا کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے پاکستانی حکومت کو نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی کشمیر میں انڈیا کے اقدامات سے مسئلہ ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھلتا۔

انڈین وزیراعظم نے یہ بات اتوار کو امریکہ میں مقیم انڈینز کے ایک بڑے جلسے سے خطاب کے دوران کہی۔ اس جلسے میں امریکی صدر ٹرمپ بھی شریک ہوئے۔

‘ہاؤڈی ، مودی!’ نامی اس جلسے کو امریکہ میں کسی غیر ملکی رہنما کا اب تک کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیا گیا ہے۔ اس جلسے میں تقریباً 50 ہزار افراد نے شرکت کی۔

نریندر مودی آج کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور تجارتی مذاکرات کے لیے امریکہ کے دورے پر ہیں۔

[pullquote]’انڈیا کے خلاف نفرت سیاست کا محور‘[/pullquote]

ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع این آر جی سٹیڈیم میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اپنے یہاں (کشمیر میں) جو کر رہا ہے اس سے کچھ ایسے لوگوں کو بھی مسئلہ ہے جن سے خود اپنا دیس سنبھل نہیں رہا ہے۔‘

نریندر مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ان لوگوں نے انڈیا کے خلاف نفرت کو ہی اپنی سیاست کا محور بنا دیا ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو امن نہیں چاہتے، دہشت گردی کے حامی ہیں اور دہشت گردوں کو پالتے پوستے ہیں۔‘

انڈین وزیراعظم نے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی پہچان صرف آپ نہیں پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکہ میں نائن الیون ہو یا ممبئی میں 26 نومبر کے حملے ہوں، ان کی سازش کرنے والے کہاں پائے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اور اس کی ترویج کرنے والوں کے خلاف مل کر لڑائی لڑی جائے‘ اور اس لڑائی میں امریکی صدر ٹرمپ پوری مضبوطی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔

[pullquote]’آرٹیکل 370 بڑا چیلنج تھا، ختم کر دیا‘[/pullquote]

کشمیر کو انڈین آئین میں خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ذکر کرتے ہوئے انڈین وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ 70 برس سے ملک کے لیے ایک بڑا چیلینج تھا جسے کچھ دن پہلے ختم کر دیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس آرٹیکل نے جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام کو ترقی سے دور رکھا ہوا تھا اور اس کا فائدہ دہشت گردی بڑھانے والی طاقتیں اٹھا رہی تھیں اور اب انڈیا کے آئین نے جو حقوق باقی انڈینز کو دیے ہیں وہی حقوق جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام کو بھی مل گئے ہیں۔‘

خیال رہے کہ پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وہاں سکیورٹی لاک ڈاؤن جاری ہے جبکہ انڈین سکیورٹی فورسز نے اب تک ہزاروں کشمیریوں کو حراست میں بھی لیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر کی وادی جزوی طور پر دنیا سے کٹی ہوئی ہے جبکہ معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان نے اس انڈین اقدام کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے اور امریکہ میں ہی موجود پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ پیر کو امریکی صدر سے اپنی ملاقات میں اس معاملے پر بات کریں گے۔

نریندر مودی کی تقریر سے موقع پر ہیوسٹن میں جلسہ گاہ کے باہر پاکستانیوں اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین حکومت کے اقدامات کے خلاف احتجاج بھی کرتی رہی۔

اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں انڈین وزیر اعظم مودی کو اس معاملے پر سردمہری اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

[pullquote]’ٹرمپ انڈیا کے حقیقی دوست ہیں‘[/pullquote]

نریندر مودی نے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں انڈیا کا ایک ‘حقیقی دوست’ ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں امریکی صدر ٹرمپ کو ‘گرم جوش، دوستانہ ، قابل رسائی ، توانا اور حس مزاح سے بھرپور’ قرار دیا۔

نریندر مودی کے خطاب سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس ریلی سے خطاب کیا اور اسے ایک ‘تاریخی واقعہ’ قرار دیا۔

انھوں نے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے ٹیکساس آ کر بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ انڈیا کے وزیراعظم مودی امریکہ کے سب سے اچھے، قریبی اور وفادار دوستوں میں سے ہیں۔’

تالیوں کی گونج میں استقبال کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘انڈیا اور اس کے عوام کے لیے واقعی ایک غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔’

انڈیا کے ساتھ دفاعی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں کہا کہ انڈیا کے ساتھ دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا ہے اور مزید دفاعی سودے جلد کیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نومبر میں دونوں ممالک کی تینوں افواج (آرمی، بحریہ اور فضائیہ) مشترکہ طور پر مشقیں کریں گی۔ اس مشق کو ٹائیگر ٹرائمف کا نام دیا گیا ہے۔

خود بھی قوم پرست بیان بازی سے شناسائی کے حامل امریکی صدر ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے خطے میں کشیدگی کا موازنہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر سکیورٹی سے کیا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ‘انڈیا اور امریکہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہو گی۔’

ٹرمپ نے کہا کہ ‘ہم ان تمام انڈین اور امریکی فوجیوں کی قدر کرتے ہیں جو عوام کی حفاظت میں مصروف کار ہیں۔ ہم انتہا پسند اسلامی دہشت گردی سے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔’

بی بی سی کے نامہ نگار برجیش اپادھیائے کے مطابق اس جلسے میں شریک افراد کی تعداد اور جوش کی نوعیت بالکل ویسی ہی تھی جیسی امریکی صدر ٹرمپ اپنی ریلیوں میں پسند کرتے ہیں۔

اس جلسے میں نعرے صرف انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے تھے اور صدر ٹرمپ اس جلسے کے سپر سٹار تھے لیکن مجمعے نے انھیں بھی مایوس نہیں کیا اور ان کا استقبال بھی ‘یو ایس اے’ کے نعرے لگاتے ہوئے کیا جو صدر ٹرمپ کے اپنے جلسوں میں سب سے زیادہ سننے میں آتا ہے۔

گلے ملنے کے لیے مشہور انڈین وزیر اعظم مودی نے انھیں گلے لگا کر ذاتی دوستی اور سفارتکاری کا بہترین امتزاج پیش کیا۔

اس جلسے کو دونوں رہنماؤں کی جیت قرار دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے لیے یہ ایک موقع تھا کہ وہ سنہ 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی دوڑ کے لیے انڈین نژاد امریکیوں کی حمایت حاصل کر لیں جہاں ٹیکساس ایک اہم سیاسی میدان جنگ کی حیثیت سے ابھر سکتا ہے۔

جبکہ انڈین وزیر اعظم مودی کے لیے امریکی صدر کے ساتھ گلے ملتے ہوئے تصویر کھنچوانے اور تعلقات عامہ کی مہم سے ممکنہ طور پر انھیں اپنے ملک میں حالیہ سخت گیر پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے