پاکستانی آمریت کے فوائد

یہاں کی آمریتوں نے قومی ذہن کو یکسو کیا اِس نکتے پہ کہ ملت کے تمام مسائل کی جڑ آمریت ہے اور تمام بیماریوں کا حل جمہوریت میں ہے۔ فکری اور نظریاتی طور پہ انتشار کی بجائے قوم کا ذہن استحکام کی طرف گیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں یا تو سرکار کا بھونڈی طرز کا پروپیگنڈا ہوتا تھا یا دوسری طرف جمہوریت کی گردان۔ قومی گفتگو میں اور کوئی موضوعات رہ ہی نہیں گئے تھے۔

جنرل مشرف کے دور میں بھی قومی گفتگو انہی لائنوں میں استوار رہی۔ ایک طرف حکومتِ وقت کا پروپیگنڈا‘ جس سے اثر کم ہی لوگ لیتے تھے اور دوسری طرف جمہوریت کی پکار کہ جمہوریت آئے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ 9/11 کے بعد جب جنرل مشرف نے امریکا کا مکمل ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو حلقہ دانشوران میں آواز اُٹھی کہ کوئی جمہوری حکومت ہوتی تو پاکستان کا سودا اتنا سستا نہ کیا جاتا۔ اُسی دور میں جب وکلاء کی تحریک برائے بحالیٔ عدلیہ چلی تو قوم کو یہ درس دینے کی کوشش کی گئی کہ تمام خرابیوں کا حل آزاد عدلیہ میں ہے۔ میاں نواز شریف نے یہی راگ الاپا اور مفکرِ پاکستان چوہدری اعتزاز احسن تو یہاں تک چلے گئے کہ معاشی برائیوں کا حل بھی آزاد عدلیہ میں ہے۔

آزاد عدلیہ ہو گی تو معیشت پھیلے گی اور نوکریاں ملیں گی۔ جب عزت مآب افتخار چوہدری چیف جسٹس کے عہدے پہ بحال ہوئے تو قانون کی حکمرانی وکلاء صاحبان کے ہاتھ چڑھی۔ انہوں نے اپنے گھونسوں اور لاتوں سے اُس فلسفے کا جو حشر کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔

آمریتوں نے اگر فکری یکسوئی پیدا کی تو جمہوری ادوار نے عجیب قسم کے ذہنی انتشار کو جنم دیا۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ جمہوری قیادتیں مکمل طور پہ آزاد نہ تھیں اور اُن کے ہاتھ اندھیروں میں رہنے والی قوتوں کے باعث بندھے رہے‘ لیکن جمہوری ہاتھوں کو جتنی بھی تھوڑی بہت آزادی تھی وہ مال کمانے میں خوب لگی۔ جمہوری لیڈروں کے کارنامے دیکھے جائیں تو یوں لگتا ہے کہ نہ صرف اُن کے ہاتھ اتنے بندھے ہوئے نہ تھے بلکہ دو دو ہاتھوں کی بجائے چار چار ہاتھ اپنے پسندیدہ مشاغل میں صرف کیے۔ بہرحال یہ ضمنی بحث ہے۔ بنیادی نکتہ یہی ہے کہ جمہوری لیڈران قوم کی فکری ارتقاء نہ کر سکے اور اگر ریاست کی تشکیل نو کی ضرورت تھی تو اُس چیلنج پہ وہ پورا نہ اتر سکے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ ضیاء الحق کے بعد بینظیر بھٹو آمریت کی نشانیاں مٹانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتیں لیکن وہ دیگر کاموں میں لگی رہیں۔ خود تو آکسفورڈ کی پڑھی ہوئی تھیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں لیکن جس لیڈر کی مشیرِ خاص ناہید خان جیسی دانشوارانہ صلاحیتوں کی مالک ہوں تو اُس طرزِ حکمرانی کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اُس پہلے دورِ اقتدار میں ہی آصف علی زرداری نے اپنے پَر نکالنے شروع کیے اور ایسے کیے کہ پھر انہوں نے پیچھے نہ دیکھا۔

نواز شریف کی باری آئی تو پہلے دن سے ہی عجیب لڑائیوں میں پڑ گئے۔ طویل عرصے کے بعد پنجاب کے لیڈر کے طور پہ کوئی سیاست دان نمودار ہوا۔ فوج کی حمایت حاصل تھی اور صدر غلام اسحاق بھی اُن کے ساتھ تھے۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ صدر کے پاس اختیارات بہت تھے‘ لیکن جتنا دائرہ وزیر اعظم کو مہیا تھا اس میں چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے۔ لیکن صدر غلام اسحاق جنہیں پہلے وہ اپنا محسن مانتے تھے سے لڑائی مول لی اور یہ لڑائی اُس حد تک گئی کہ صدر اور وزیر اعظم دونوں برباد ہوئے۔

اِس باہمی کشمکش نے پھر بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم بننے کا موقع فراہم کیا۔ چاہتیں تو ماضی کی غلطیاں نہ دہراتیں اور بہتر حکمرانی کی بنیاد رکھتیں۔ پاکستان کا انرجی بحران تب اتنا گمبھیر نہ تھا۔ جسے ہم لوڈ شیڈنگ کہتے ہیں پاکستانی عوام اُس سے تب تک نا آشنا تھے۔ لیکن بینظیر بھٹو اور اُن کے شوہرِ نامدار نے ایک ایسی انرجی پالیسی روشناس کرائی جس کے تحت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو بجلی بنانے کی دعوت دی گئی۔ انہیں مراعات ایسی حاصل ہوئیں جو ملک کے لئے پھندہ ثابت ہوئیں۔ آج تک اُس پھندے سے نجات حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ کراچی میں بلاول ہاؤس بڑھتا گیا۔ حیران کن طور پہ آس پاس کی عمارتیں آصف زرداری کی تحویل میں آتی گئیں۔ پھر بینظیر کی حکومت اپنے ہی بنائے صدر یعنی فاروق لغاری کے ہاتھوں ختم ہوئی۔

ان سارے حالات نے نواز شریف کے لئے پھر موقع پیدا کیا کہ وہ دوسری بار وزیر اعظم کے طور پہ اقتدار میں آئیں۔ آتے ہی انہوں نے صدر کے آئینی اختیار کاٹے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے کسی معمولی نکتے پہ لڑائی شروع کی۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو وقت سے پہلے گھر بھیجا اور یہ سمجھنے لگے کہ وہ ناقابل تسخیر ہو گئے ہیں۔ پھر کارگل کا معرکہ ہوا جس کے خدوخال وہ سمجھ نہ سکے اور اُن کی حکومت کا بستر گول کر دیا گیا۔

مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو ایک ایک بار پھر اقتدار کا موقع ملا لیکن دونوں ادوار نتائج کے اعتبار سے برباد گئے۔ اب یہ تیسرے مسیحا آئے ہیں جنہیں ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ واقعی مسیحا سمجھتا تھا۔ اُن سے یہ اُمیدیں وابستہ تھیں کہ آتے ہی وہ طوفان برپا کر دیں گے۔ برائیاں جڑ سے اکھاڑ دی جائیں گی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

معاشی حالات اور مجبوریاں تو اپنی جگہ لیکن فکری اور معاشرتی لحاظ سے عمران خان بہت کچھ کر سکتے تھے۔ پارلیمانی نمبروں سے ہٹ کے اُن کے ہاتھ مضبوط تھے۔ اداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اب بھی ہے۔ اپوزیشن عددی لحاظ سے زیادہ ہو گی لیکن مورال اُس کا تباہ ہے اور کرپشن کے الزامات نے اس کے لیڈروں کا کچھ نہیں چھوڑا۔ عمران خان چاہتے تو فرسودہ خیالات کا صفایا کرتے ہوئے ایک فکری انقلاب کی شروعات کر سکتے تھے لیکن یہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ ارد گرد کے لوگ، وزیر اور مشیر، درمیانی سطح کے لوگ ہیں۔ کسی قسم کی منصوبہ بندی تو سر ے سے نہیں تھی۔

کرپشن اور احتساب جیسے ایک دو موضوعات زبان پہ چڑھے ہوئے ہیں اور اُس سے زیادہ کی سوچ نظر نہیں آتی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جو حمایت میں لوگ کھڑے تھے اور عمران خان کو مسیحا سے کم درجہ دینے کیلئے تیار نہ تھے اُن کے حوصلے بھی پست ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک سال کے عرصے میں بہت سی توقعات خاک میں مل چکی ہیں۔ غنیمت یہ ہے کہ اداروں کا اب بھی سہارا ہے۔ ادارے کریں بھی کیا۔ اتنے تجربات کے بعد اور کہاں جائیں، کس پہ اپنا ہاتھ رکھیں۔

نریندر مودی کا شکر بجا لانا چاہیے کہ اُس نے کشمیر کا مسئلہ دوبارہ زندہ کر کے ہمارے ہاتھ تھما دیا ہے۔ اب اسی کو لہرائے پھرتے ہیں اس ادا کے ساتھ کہ لگتا ہے کہ کشمیر کی وجہ سے ہمیں اور مسائل پہ غور و فکر کا استثنیٰ حاصل ہو گیا ہے۔ کچھ وقت گزرے گا، جذبات ٹھنڈے ہوں گے، پھر کیا ہو گا؟

کشمیر کے حوالے سے عمران خان نے ایک بات صحیح کہی ہے اور اِس کی انہیں داد ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جو لوگ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے جانے کی بات کرتے ہیں یا ایسی سوچ رکھتے ہیں وہ کشمیریوں کے دشمن ہیں۔ ایسے واشگاف الفاظ میں ایسی بات شاید کوئی اور پاکستانی لیڈر نہ کہہ سکتا۔ ہندوستان کے بارے میں بھی عمران خان کی بنیادی سوچ درست ہے کہ ہندوستان دشمنی کو پال کے پاکستان ترقی کی راہ پہ نہیں چل سکتا۔ یہ تو حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ اُن کی یہ سوچ بے وزن اور بے وقعت ہو کے رہ گئی ہے۔ جہاں پہ نریندر مودی ہو اور اُن کی کشمیر میں در اندازی وہاں پاکستان میں ہندوستان دشمنی کم کرنے کی کون بات کر سکتا ہے؟

فی الحال تو یہ باب ختم ہوا اور مستقبل قریب تک پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اسی سرد خانے میں رہیں گے جہاں اب ہیں۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ کچھ ہماری مجموعی صلاحیتوں کا تقاضا ہے کہ ہم باہمی معاملات صحیح خطوط پہ استوار نہ کر سکے۔ ہندوستان پاکستان دشمنی ناگزیر نہیں تھی۔ ستاروں میں بھی نہیں لکھی گئی تھی۔ بس واقعات ایسے رونما ہوئے، خاص طور پہ 1965ء کی جنگ، جس سے یہ دشمنی مضبوط ہوتی گئی۔

بہرحال صدر ٹرمپ کے ساتھ بیٹھے عمران خان کتنے اچھے لگتے ہیں۔ پتا نہیں کیا ہوتا ہے کہ واپس لوٹتے ہیں تو سوچ اُن کی استخاروں اور زائچوں میں گم ہو جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے