تقریر

تقریر افراط و تفریط کی نذر ہو گئی ہے۔ تعصب اور نیم خواندگی کا نتیجہ، اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟

ایک طرف سے یہ خبر آ رہی ہے کہ انسانی تاریخ میں ‘پہلی مرتبہ‘ ایک عالمی فورم پر اسلام اور کشمیر کا مقدمہ اتنے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی نہیں، آئندہ بھی یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ کوئی اس سے بہتر انداز میں اس موضوع پر کلام کر سکے۔ فصاحت و بلاغت کا باب اب تا قیامت بند ہو گیا۔ دوسری جانب یہ کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مقدمہ اچھی طرح پیش نہیں کیا جا سکا‘ اور یہ کہ تقریروں سے کیا ہوتا ہے؟

یقیناً کچھ آوازیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے اعتدال کو پیش نظر رکھا ہے اور تعصبات سے بلند تر ہونے کی کوشش کی ہے۔ ایک منقسم معاشرے میں یہ بھی غنیمت ہے۔ میں اپنے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس تقسیم سے ماورا کوئی رائے قائم کر سکوں گا؛ تاہم میں یہ نصیحت ضرور دہرا سکتا ہوں کہ ہمیں دلیل کی اساس پر کوئی مقدمہ قائم کرنا چاہیے نہ کہ تعصب کی بنیاد پر۔ اس کا مخاطب دوسروں سے پہلے میں خود ہوں۔

یہ بات کہ محض تقریروں سے کیا ہوتا ہے، درست ہونے کے باوجود، اس سیاق و سباق میں بے محل ہے۔ عمران خان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے گئے تھے، کوئی جنگ لڑنے نہیں۔ وہاں یہی دیکھا جائے گا کہ تقریر کیسی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ خان صاحب کی زندگی کی بہترین تقریر تھی۔ انہوں نے قدرتِ کلام اور اعتمادکے ساتھ اپنی بات کہی اور سامعین کو متاثر کیا۔ اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ موجودہ حالات میں کشمیر پر وہی کچھ کہا جا سکتا تھا‘ جو انہوں نے کہہ ڈالا۔

ماؤ نے کہا تھا: اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل دو۔ عمران خان نے یہی کیا۔ وہ لکھی ہوئی عبارت روانی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے۔ اس لیے ہمیشہ اس سے گریز کرتے ہیں۔ شاید ان کے لیے ایک جگہ پر اپنی توجہ مرتکز رکھنا ممکن نہیں۔ بیٹھتے بھی ہیں تو مسلسل متحرک رہتے ہیں۔ اس کے اسباب اُن کے قریبی احباب بتا سکتے ہیں یا کوئی ماہر نفسیات۔ تقریر کے میدان میں، انہوں نے اپنی اس کمزوری کو طاقت یوں بنایا کہ فی البدیہہ گفتگو کی مشق بہم پہنچائی۔ اب وہ اس کا ڈھنگ سیکھ گئے ہیں۔

تقریر ہوتی ہی وہی ہے جس میں خطیب سامعین سے براہ راست تعلق قائم کرتا ہے۔ تقریر کچھ پڑھنے کا نہیں، کہنے کا نام ہے؛ تاہم اہم فورمز پر یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکلے جس کا دفاع مشکل ہو جائے۔ اس لیے روایت یہی ہے کہ لکھی ہوئی عبارت پڑھ دی جائے۔ عمران خان نے براہ راست ہم کلام ہو کر، جہاں اس کمزوری کو چھپایا، وہاں تقریر کی روح کے مطابق، زیادہ موثر گفتگو کی۔ انہوں نے اچھی تیاری کی اور یوں ان کے کسی جملے پر گرفت کرنا ناقدین کے لیے مشکل ہو گیا۔

اس اعتراف کے باوصف، یہ کہنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے کہ اس باب میں حرفِ آخر کہہ دیا گیا یا ‘پہلی بار‘ یہ مقدمہ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایسے نوواردانِ سیاست یہ بات کہیں جن کی سیاست کا اوّل و آخر عمران خان ہیں، تو انہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے‘ مگر صحافت کے گرگِ باراں دیدہ جب یہی راگ الاپنے لگیں تو حیرت ہوتی ہے۔

جس ملک کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا سیاسی خطیب گزرا ہو، وہاں یہ بات کیسے کہی جا سکتی؟ یہ واقعہ ہے کہ علم اور سیاست فہمی کے میدان میں دونوں کا کوئی موازنہ نہیں۔ بھٹو ایک مدبر تھے۔ سماجی علوم، تاریخ اور سیاست کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ الہیات کے طالب علم نہیں تھے مگر تاریخِ مذہب، سماجیاتِ مذہب اور اسلام کی سیاسی فکر پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی تقاریر اور خطبات اس کے گواہ ہیں۔ تقریر محض الفاظ سے نہیں، نفسِ مضمون سے توانا ہوتی ہے جس کا تعلق علم سے ہے۔

9 جولائی 1964ء کو، مثال کے طور پر ،انہوں نے لنکنز ان لندن میں ”سلامتی کونسل اور تنازعات کا پرامن حل‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ اگر یہی تقریر پڑھ لی جائے تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس باب میں کس سطح کی گفتگو اس سے پہلے ہوتی رہی ہے۔ عالمی فورمز پر بھٹو صاحب کی شاید ہی کوئی تقریر ہو جس میں کشمیر کا ذکر نہ ہو۔ کشمیر کا مقدمہ انہوں نے جس اسلوب اور قدرتِ کلام کے ساتھ پیش کیا، اس کی کوئی دوسری مثال پاکستان کی تاریخ میں تا دمِ تحریر موجود نہیں۔

برطانیہ کی سامراجی تاریخ اور ہندوستان کی لوٹ مار کے بارے میں انہوں نے تاریخی حوالوں کے ساتھ جس طرح اظہارِ خیال کیا ہے، وہ ان کے وسعتِ مطالعہ کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ ‘پاکستان اور مسلم دنیا‘ پر ان کا ایک طویل مضمون ہے‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں مسلم بیداری کی تاریخ پر کیسی نگاہ رکھتے تھے‘ اور مسلم دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلق کس گہرائی کے ساتھ سمجھتے تھے۔ یہ سب تقریریں اور تحریریں 1960ء کی دہائی کی ہیں‘ جب وہ ایک نوجوان سیاست دان تھے۔

اب اگر اس تاریخ کی موجودگی میں کوئی یہ کہے کہ عمران خان نے ‘پہلی بار‘ امتِ مسلمہ اور کشمیر کا موقف اس قوت کے ساتھ پیش کیا ہے تو اسے نیم خواندگی پر محمول کیا جا سکتا ہے یا تعصب پر۔ اس میں عمران خان کا کوئی قصور نہیں‘ اگر وہ بھٹو سے پیچھے کھڑے ہیں۔ عمران خان نے جب میدانِ سیاست میں پہلا قدم رکھا تو اس وقت ان کی عمر چوالیس سال تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے سیاسیات پر اگر کوئی سنجیدہ کتاب پڑھی ہو گی تو اپنے دورِ طالب علمی میں۔

یہ بھی معلوم ہے کہ سیاسیات میں ان کے نمبر سب سے کم تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاست سے ان کی دلچسپی کا کیا عالم تھا۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ ہمیشہ اس کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اب اگر وہ سماجیات، مذہب یا تاریخ کے بارے میں زیادہ با خبر نہیں تو انہیں کوئی الزام نہیں دیا جا سکتا۔ بایں ہمہ اس پس منظر کے ساتھ، انہیں عالمی مدبرین میں شامل کرنا بھی سیاست و تاریخ شناسی کی کوئی عمدہ مثال نہیں۔

معاصر مسلمان راہنماؤں میں مہاتیر محمد اور طیب اردوان نے اسلامو فوبیا پر جو کچھ کہہ رکھا ہے، اس کی موجودگی میں بھی اس تقریر کو ‘پہلی بار‘ کا ایوارڈ نہیں دیا جا سکتا۔ مہاتیر محمد تو 9/11 سے بھی پہلے مغرب میں پائے جانے والے اسلام مخالف رجحانات اور سیاسی حکمتِ عملی کو جرأت اور قدرتِ کلام کے ساتھ اپنی تنقید کا موضوع بناتے رہے ہیں۔

اس تقریر نے البتہ وابستگانِ عمران کو حوصلہ دیا ہے‘ جن کے لیے ان کا دفاع مشکل سے مشکل تر ہو رہا تھا۔ وہ ایک سیاسی ضرورت یا کم علمی کے سبب اس تقریر کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں تاکہ ان کی گرتی سیاسی ساکھ کو کوئی سہارا مل سکے۔ اگر اس معاملے میں بھی بھٹو صاحب کے ساتھ خان صاحب کا موازنہ کیا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ محض تقریریں کسی لیڈر یا حکومت کو سہارا نہیں دے سکتیں، جب وہ داخلی محاذ پر ناکام ہو۔ خان صاحب کی اس ناکامی کا اعتراف ان کے حامی اعلانیہ کر چکے۔

صرف کشمیر کا معاملہ پیشِ نظر رہے تو بھی یہ فرق واضح ہے کہ بھارت نے اقدام کیا اور ہم نے تقریریں کی۔ تقریر اقدام کا جواب نہیں ہو سکتی۔ ذرائع ابلاغ کی تائید کے باوجود، دنیا کے اربابِ حل و عقد اہلِ کشمیر کے دکھوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان عالمی برادری کو اپنی اہمیت کا احساس نہیں دلا سکا۔ اس کا اندازہ اس خالی ہال سے ہو سکتا ہے جو جنرل اسمبلی میں عمران خان کے سامنے تھا۔ جب نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا، تب بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں تھی۔ گویا یہ آج کا نہیں، پرانا مسئلہ ہے۔

عمران خان نے ایک عالمی فورم پر جو ہو سکتا تھا، کر دکھایا۔ یہ تقریر لیکن اُن کی داخلی ناکامیوں اور اسلوبِ حکومت کی کمزوریوں کا مداوا نہیں بن سکتی۔ اس سے مسئلہ کشمیر کا حل بھی ممکن نہیں۔ اربابِ اقتدار کو تقریروں کی بنیاد پر نہیں، کام کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے