آزادی مارچ کا یک نکاتی ایجنڈا

ابھی ابھی مولانا فضل الرحمٰن سے بات ہوئی ہے۔ ٹیلی فون پر اس گفتگو سے بہت سے ابہام ختم ہوئے ہیں اور بہت سے سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔ اس گفتگو کا خلاصہ قارئین کے لئے پیش کر رہا ہوں۔

اس بات کا تو سب کو ادراک ہے کہ مولانا نے ستائیس اکتوبر کو موجودہ حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ اس احتجاجی تحریک کا نام آزادی مارچ تجویز کیا گیا۔

اس مارچ کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کی شمولیت پر سوال اٹھ رہا ہے۔ کبھی میڈیا پر ن لیگ کے بائیکاٹ کا اعلان سامنے آ جاتا ہے۔ کبھی مسلم لیگ ن کی دھڑے بندی زیر بحث آنے لگتی ہے۔

دوسری جانب کبھی پیپلزپارٹی اخلاقی مدد کا اعلان کرتی ہے کبھی پوری شدت سے شمولیت انکے پیش نظر رہتی ہے۔ اس نکتے پر بات کرنے سے پہلے میں نے مولانا سے سوال ستائیس اکتوبر کی تاریخ کے حوالے سے پوچھا۔ آخر ستائیس اکتوبر پر ہی مولانا کیوں مصر ہیں۔

یہ تحریک کچھ موخر بھی ہو سکتی تھی؟ مولانا نے کہا کہ ستائیس اکتوبر کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب کشمیریوں سے انکی آزادی سلب کر لی گئی۔ موجودہ حکومت نے جو رویہ کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ اختیار کیا ہے اس کے بعد اسی تاریخ سے اس حکومت کے خاتمے کیلئے تحریک چلائیں گے۔

مولانا نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ایک برس میں سارے پاکستان کے دورے کئے۔ کارکنوں کو سرگرم کیا۔ حکومت کی کارکردگی پر لاکھوں سے خطاب کیا اور ہزاروں سے ملاقات کی۔

امسال اٹھائیس جولائی کو اس سلسلے کا آخری جلسہ انہوں نے کوئٹہ میں کیا۔ جہاں اپنے کارکنوں سے انہوں نے عہد کیا تھا کہ جلد ہی اس حکومت کے خاتمے کے لئے پورے ملک میں احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ اب اس حکومت کے خاتمے میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی۔

مولانا کے مطابق انہیں توقع تھی کہ یہ نااہل حکومت اس احتجاجی تحریک کے اعلان سے پہلے ہی مستعفی ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اس لئے اب آزادی مارچ کے سوا اس حکومت سے نجات کا کوئی اور رستہ نہیں ہے۔

دیگر سیاسی جماعتوں کی دھرنے میں شمولیت کے حوالے سے مولانا نے کہا کہ ن لیگ کے حوالے سے میڈیا میں ابہام پیدا کیا جا رہا ہے۔ غلط خبریں دی جا رہی ہیں۔ وہ اسی بات پر یقین کریں گے جو مسلم لیگ ن کے وفد نے ان سے کہی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ مسلم لیگ ن کے وفد نے اب نواز شریف سے مل کر ان کی باقاعدہ اجازت طلب کرنا ہے جو کہ اصولی طور پر مل چکی ہے بس اسکا اعلان باقی ہے۔

کیپٹن صفدر کی کال اور آزادی مارچ کے مسئلے پر مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی کی خبروں پر مولانا نے ایک بار پھر کہا یہ اس جماعت کا اندرونی معاملہ ہے مگر اس میں حقیقت سے زیادہ میڈیا کا تخلیق کردہ ابہام ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس کے بعد اب بات واضح ہو چکی ہے۔ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے حوالے سے بھی مولانا بہت پر امید تھے۔

کے پی حکومت نے متعدد بار یہ خبر دی کہ وہ آزادی مارچ کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور مولانا اور انکے ساتھیوں کو کے پی سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔ راستے بلاک کر دیئے جائیں گے۔

اس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ جب آزادی مارچ ہوگا تو انسانوں کا سیلاب ہوگا اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی۔ اور اگر کسی نے انکی راہ میں آنے کی کوشش کی تو وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔

آپ دیکھیں گے کہ پورا ملک لاک ڈائون ہوگا اور کاروبار حکومت ایک دن میں ٹھپ ہو جائے گا۔ لوگ اس تعداد میں اس مارچ میں شریک ہوں گے کہ حکومت کو استعفی دیتے ہی بنے گی۔

آزادی مارچ کی حکمت عملی کے حوالے سے جب سوال کیا تو مولانا کہنے لگے کہ آغاز تو اسلام آباد کی جانب مارچ سے ہوگا اور یہ حکومت مستعفی ہو جائے گی۔ لیکن اگر استعفیٰ میں لیت و لعل سے کام لیا گیا تو پھر دھرنا دیا جائے گا۔ یہ دھرنا حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا۔

میں نے اپنے تئیں یہ ٹوہ لگانے کی بہت کوشش کی کہ آزادی مارچ کا بنیادی نعرہ کیا ہوگا؟۔ اس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ اس آزادی مارچ کے احتجاج کے نکات تو بہت ہیں۔ اس میں مہنگائی بھی ہے، کرپشن بھی ہے۔ وزراء کی کرپشن بھی ہے۔

فاٹا ریفارمز کے نام پر دھوکہ بھی ہے، ایک کروڑ نوکریوں کا جھوٹا وعدہ بھی ہے لیکن اس مارچ کا مطالبہ ایک ہی ہے اور وہ یک نکاتی ایجنڈا یہ ہے کہ یہ حکومت فوری طور پر مستعفی ہو جائے۔

اسمبلیاں فوری طور پر تحلیل کر دی جائیں اور الیکشن ریفارمز کے بعد ملک میں نئے اور شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ ان مطالبات کے حصول تک یہ احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔

ابھی تک اس کالم میں میں نے جو بھی لکھا وہ مولانا کی زبانی تھا اب اس آزادی مارچ کے حوالے سے میرا تجزیہ بھی سن لیں۔ گزشتہ پانچ سال میں ہم نے ٹی وی اسکرینوں پر علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے فن خطابت کے جوہر دیکھے ہیں اب مولانا فضل الرحمٰن میدان عمل میں آ رہے ہیں۔

ان کے خطابت کے ہنر کے سامنے مذکورہ بالا دونوں افراد پانی بھرتے ہیں۔ دوسرا مولانا اپنے اصولی موقف پر بہت سختی سے قائم ہیں اور اگر دیگر تمام جماعتیں ان کے ساتھ شامل نہ بھی ہوئیں تو مسلم لیگ ن کا جی ٹی روڈ کا کارکن اور مولانا کے جانثار اس حکومت کے لئے بڑی مشکل پیدا کر سکتے ہیں، تیسرا اگر احتجاج بہت شدت اختیار کر گیا تو حکومت کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا لیکن اب بھی توقع ہے کہ اس احتجاج میں شدت آنے سے پہلے پہلے معاملے کو نمٹا دیا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے