مردانہ مارچ

آج ایک اہم نشست تھی مگر موضوعات قسم قسم کے۔ مجھ سے پوچھا جانے والا ایک سوال یوں تھا: سپریم جوڈیشل کونسل نے دو فاضل جج صاحبان کے خلاف زیرِ التوا ریفرنسوں کے حوالے سے ایک فیصلہ صادر کر دیا‘ جس کے مطابق ایک ریفرنس خارج ہو گیا۔ ریفرنس کے اخراج والے اس حکم کو کسی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج نہیں کیا۔ مطلب یہ کہ اس ریفرنس کی حد تک S.J.C کی آئینی Jurisdiction مان لی گئی۔ بغیر کسی اعتراض یا تنازع کے۔ جو ریفرنس باقی ہے اس کی بابت S.J.C کے اختیارِ سماعت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ میں نے آئین کے آرٹیکل 211 کا حوالہ دیا‘ جس کی زبان یہ ہے:

Bar of Jurisdiction. The proceedings before the council, its report to the President & the removal of the Judge under clause 6 of Article 209 shall not be called in question in any court.
اس لیے اگر کوئی فریقِ مقدمہ کسی عدالت یا ادارے کا آدھا اختیار مان لے اور آدھے سے انکار کرے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک سیاسی مولوی صاحب کا 27 اکتوبر والا مردانہ مارچ۔

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق پاکستان کی اکثریتی آبادی خاتونانہ یا زنانہ صِنف پر مشتمل ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں خواتین نے اپنی اہلیت، صلاحیت، عزم، حوصلہ اور مہارت نہیں منوائی۔قیامِ پاکستان کے وقت ہزاروں دوسری خواتین نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا جن کی سرخیل بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ ڈاکٹر فاطمہ جناح تھیں۔ شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کی شریکِ حیات بیگم رعنا لیاقت علی بھی اِن کے ہم قدم اور ہم رقاب رہیں۔ بیگم وقارالنسا اور فرنگی سیکرٹریٹ لاہور میں پاکستانی پرچم لہرانے والی دھان پان سی لڑکی فاطمہ صغریٰ کا نام بھی تاریخ کے ارفع ایوانوں میں محفوظ ہے۔

تاریخِ پاکستان کے دورِ ثانی میں بیگم نسیم ولی خان، شہید بی بی اور آج بھی درجنوں خواتین ہر سیاسی جماعت میں صفِ اول کی Activist ہیں۔ لیکن پچھلے الیکشن میں ڈیڑھ پونے دو لاکھ ووٹوں سے ”بُکل‘‘ بھرنے والے سیاسی مولوی صاحب نے اپنے تئیں پاکستان کی تاریخ سے سیاسی خواتین کو حرفِ غلط کی طرح نکال باہر کیا ہے۔ یہ سمجھے بغیر کہ ریاست کے آئین کے تحت چلنے والی سیاست میں سے آبادی کے کسی بھی طبقے کو سیاسی سرگرمیوں سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ ویسے تو اس طرح کا خطِ تنسیخ کھینچنا عملی طور پر بھی ممکن نہیں۔ اس کی وجہ پاکستان کے میڈیا سنٹرز، اخبارات، ٹی وی سٹوڈیوز، بلاگرز اور سوشل میڈیا کی کوریج کرنے والی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اِنہی خواتین کی ا کثریت کو سیاسی مولوی صاحبان بلا امتیازِ جنس انٹریوز دیتے ہیں، اِن سے گفتگوئیں کرتے ہیں، اِن کی گفتگوئیں ریکارڈ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اِن Clips کو وائرل بھی کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ وہ ایسا سب کچھ نہ کریں تب بھی معلومات تک رسائی 1973 کے آئین میں بنیادی آئینی حق قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں آئین کا آرٹیکل 19-A:

Right to Information.19-A. Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulation and reasonable restrictions imposed by law.
مردانہ مارچ میں خواتین کی شرکت کے بارے میں ہدایت نامہِ شرکاء آ چکا۔ لیکن ہماری آبادی کی تیسری صنفِ لطیف جنہیں خواجہ سرا کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ اِن کے بارے میں وضاحت موجود نہیں کہ انہیں مارچ میں رونق افروز ہم وطنوں تک رسائی حاصل ہو سکے گی یا نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس مارچ کو قدرت کی تقسیم کے عین مطابق پورے پاکستانیوں کی دلچسپی کا بنایا جاتا۔

مردانہ سے یاد آیا ایک لمبے عرصے تک وفاقی شرعی عدالت بھی مردانہ ہی رہی۔ پھر کراچی کے مکین سابق چیف جسٹس ظہیر جمالی صاحب کی بیگم صاحبہ کو شرعی عدالت کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہمارے عدالتی نظام کے پہلے تین درجات میں لیڈی ججز خاص تعداد میں موجود ہیں۔ سول جج، مجسٹریٹ ڈسٹرکٹ اینڈ ایڈیشنل ججز۔ چار ہائی کورٹس، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی میں لیڈی ججز موجود ہیں‘ لیکن وفاق کی عدالتِ عالیہ ابھی تک خالص مردانہ ہے۔

اس تقسیم کے خاتمے کے لیے میں نے آئینی ترمیم کا ایک قانون بطور Bill پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا‘ جس کو ہائوس کے ذریعے قانون کی سٹینڈنگ کمیٹی میں بھجوا دیا گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے خواتین کی آدھی سے زیادہ آبادی کو 33 فیصد کوٹہ دینے کی تجویز تھی‘ جس کی بنیاد ہمارے آئین کے آرٹیکل 51 کو بنایا گیا‘ جہاں پہ خواتین کوٹہ سسٹم کے تحت سیاسی جماعتوںکے پلیٹ فارم سے چاروں صوبائی اسمبلیوں، اے جے کے، جی بی، قومی اسمبلی اور ہائوس آف فیڈریشن کی ممبری مل جاتی ہے۔ 342 ارکان کے ہائوس میں 60 خواتین نامزد ممبرشپ کے اس نظام کے ذریعے صرف نیشنل اسمبلی کا حصہ بن پاتی ہیں۔

اس آئینی بل کی اہمیت کے پیشِ نظر لاء اینڈ جسٹس سٹینڈنگ کمیٹی نے ملک کی پانچوں ہائی کورٹس کی بار ایسوسی ایشنز، تمام بار کونسلز کو بھی اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کے لیے دعوت نامے بھجوائے۔ سوائے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک پنجابی نائب صدر خاتون کے باقی سارے راہنمائوں نے بل کی مخالفت کر دی۔ اِن میں ایک بڑی خاتون رہنما سرِفہرست تھیں‘ جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ اسLegislative Excercise سے راز یہ کھلا کہ صنفی اِمتیاز صرف صنفی نہیں بلکہ طبقاتی بھی ہے۔ ہمارے آئین میں جو صنفی امتیاز ممنوع ہے وہ محض جنس کی بنیاد پر ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ آئین کا Article 25 دیکھ لے‘ جس کے ذیلی آرٹیکل (1) میں واضح طور پر لکھا ہے کہ سارے شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں‘ جبکہ ذیلی آرٹیکل (2) کہتا ہے: There shall be no discrimination on the basis of sex.

اب آئیے آئین کے کچھ ایسے مزید آرٹیکلز کی طرف جن میں خواتین کو خصوصی قانون سازی اور ادارہ سازی کے ذریعے برابر کے شہری ہونے کی گارنٹی دی گئی ہے۔ اِن میں سے پہلا پاکستان کے بلدیاتی الیکشن میں خواتین کیلئے 39,964 سیٹیں مختص کرنا، صوبائی اسمبلیوں میں سے پنجاب میں 66 لیڈیز سیٹس۔ صوبہ سندھ میں 29 سیٹس، کے پی میں 22 جبکہ بلوچستان اسمبلی میں 11 اور جی بی میں 6 سیٹیں مختص کرنا، جبکہ قومی اسمبلی میں60 سیٹیں مختص کرنا ہے۔ اِسی طرح سینیٹ آف پاکستان میں چاروں صوبوں سے خواتین کیلئے چار سیٹیں مخصوص ہیں۔ Promotion of participation of women in national life ریاست کے راہنما اصولوں میں سے ایک قرار پایا۔ خاندان اور عورت کا تحفظ علیحدہ سے گارنٹی کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25(3) میں خواتین کے حقوق کو مزید تحفظ دیا گیا ہے۔ ایسے میں سیاست کے Arena سے خواتین کو نکالنا اپنی تاریخ اور آئین دونوںکی نفی ہے۔ دوسری جانب زندگی کی ہر دوڑ میں ابنِ آدم اور بنتِ حوا ہم قدم نظر آتے ہیں۔ مردانہ مارچ کی اجازت تو فیشن کے ریمپ پر بھی نہیں۔ اِسی مضمون پر شاعر نے یوں خیال آرائی کی:
وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی
وہ اِیلم علم کو، مولانا کو ملوانا پڑھتی تھی
اِسی کالج میں یارو ایک دن سلطانہ پڑھتی تھی

مارچ کا مقصد کشمیر ہے یا کشمیر کمیٹی کے گلچھرے، بھلا یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ مولوی صاحب کشمیر کا راستہ بھول چکے ہوں۔ شاہد وہ مقبوضہ کشمیر کے شہر اسلام آباد (اننت ناگ) جانا چاہتے ہوں لیکن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے انہیں مہرہ بنا کر غلط راستے پر ڈال دیا۔ کھیر کی کہانی سب جانتے ہیں، کہ ایک شخص گائے کی موٹی ملائی والے دودھ میں لمبے چاول والی کھیر انگلی سے لگا کر چاٹنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ زمیندار نے پوچھا: دودھ کیلئے گائے، چاول کیلئے دھان، شکر کیلئے گنا چاہیے‘ اِن میں سے تمہارے پاس کیا ہے؟ اس شخص نے زمیندار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: میرے پاس ”انگلی‘‘ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے